Presmurdu - Pakistani Urdu Forum | urdu shayari | Urdu Islam | Design Urdu Poetry
Aslam-O-Alekum
mhotram guest ager ap www.presmurdu.com k member hain tu yahan sa login hun....
ager ap member nahi hain tu yahan sa ap humara es forum ma Register ho sakta hain.......





















Presmurdu - Pakistani Urdu Forum | urdu shayari | Urdu Islam | Design Urdu Poetry
Aslam-O-Alekum
mhotram guest ager ap www.presmurdu.com k member hain tu yahan sa login hun....
ager ap member nahi hain tu yahan sa ap humara es forum ma Register ho sakta hain.......




















Presmurdu - Pakistani Urdu Forum | urdu shayari | Urdu Islam | Design Urdu Poetry
Would you like to react to this message? Create an account in a few clicks or log in to continue.

Presmurdu - Pakistani Urdu Forum | urdu shayari | Urdu Islam | Design Urdu PoetryLog in

descriptioncompleteغلط فہمی- 1

more_horiz
غلط فہمی… محمد یعقوب بھٹی






عزیز خان کی طبیعت خاصی خراب تھی۔ اس کے باوجود رائنہ خان گھر سے نکل آئی تھی۔ عزیز خان اس کے والد تھے۔ مگر اس کے باوجود رائنہ کے احساسات ان کے حوالے سے پتھر ہوچکے تھے۔
جلتی آنکھوں کے ساتھ وہ بڑی رش ڈرائیونگ کررہی تھی۔ وہ محض اپنے باپ کی محبت آمیز نگاہوں سے دور ہونے کے لیے گھر سے نکل آئی تھی۔ اسے باپ کی محبت و شفقت محض دکھاوے کی لگتی تھی۔ وہ جب بھی اپنی محبت و شفقت کا اظہار کرتے تھے۔ رائنہ چڑ سی جاتی۔ تلخیاں اس کے وجود میں تیزی سے گھلنے لگی تھیں۔
مگر ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ یہ تبدیلی محض تین ماہ پہلے آئی تھی۔ اس سے پہلے تو رائنہ کی جان بھی اپنے پاپا میں تھی۔ یہ محبت شاید اب بھی بہت گہرائی میں کہیں موجود تھی۔ مگر اس پر منوں وزنی پتھر آگرے تھے۔
رائنہ نے ساحل کے ایک ویران گوشے میں گاڑی روکی اور اسٹیئرنگ سے سر ٹکا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ یہ آنسو باپ کی خرابی صحت کی وجہ سے کئی دنوں سے رُکے ہوئے تھے۔ باپ کی حالت دیکھ کر اس کا دل جیسے دھیرے دھیرے کچلا جارہا تھا۔
آج جب وہ گھر سے نکلنے لگی تھی تو عطا بابا نے اسے روکنے کی کتنی کوشش کی تھی۔ عطا بابا نے اسے گود میں کھلایا تھا۔ وہ ان کی بے حد عزت کرتی تھی۔ وہ ملازم ہونے کے باوجود فیملی ممبر کی سی حیثیت رکھتے تھے۔
رائنہ کی نگاہوں میں ابھی تک عطا بابا کا آخری عکس موجود تھا۔ اسے روکنے کی کوشش میں ناکامی کے بعد ان کاچہرہ حزن و یاس کی تصویر بن گیا تھا اور شاید زندگی میں پہلی دفعہ رائنہ نے ان کی آنکھوں میں غصے کی سرخی بھی دیکھی تھی۔ واضح طور پر وہ رائنہ کے رویے سے بے حد ناخوش تھے۔
رائنہ کا سیل فون کافی دیر سے گنگنا رہا تھا۔ وہ جانتی تھی، یہ کال عطا بابا کی طرف سے ہے۔ اس لیے اس نے فون نہیں اٹھایا تھا۔ اب آنسوئوں نے بہہ کر دل کے بوجھ کو خاصا ہلکا کردیا تھا۔ کال اوکے کرنے تک وہ خود کو خاصا سنبھال چکی تھی۔
’’بیٹا! گھر آجائو۔ خان صاحب کی حالت خاصی خراب ہے۔ دمے کا شدید حملہ ہوا ہے۔ وہ تمہیں یاد کررہے ہیں۔‘‘ عطا بابا کی ضعیف آواز آنسوئوں سے بھیگی ہوئی تھی۔ ’’انہیں تمہاری ضرورت ہے بیٹا! خدا کے واسطے گھر آجائو۔‘‘ آخر میں وہ باقاعدہ گڑگڑائے تھے۔
رائنہ کی آنکھوں سے دوبارہ آنسو رواں ہوگئے۔ اس نے بڑی بے دردی سے ان آنسوئوں کو مسلا اور عطا بابا کی التجائوں سے نظریں چراتے ہوئے کہا۔ ’’ڈاکٹر ذوالقرنین آگئے ہیں؟‘‘ گھر سے نکلنے سے پہلے اس نے اپنے فیملی ڈاکٹر کو فون کردیا تھا۔
’’ہاں، وہ آگئے ہیں۔ تمہارا پوچھ رہے ہیں۔ ان کا ارادہ خان صاحب کو اسپتال لے جانے کا ہے۔ تم فوراً آجائو۔‘‘ عطا بابا کی سوئی اسے گھر بلانے پر اٹکی ہوئی تھی۔
رائنہ کو گھبراہٹ نے آگھیرا۔ کراچی آج کل شدید سردی کی لپیٹ میں تھا اور اس موسم میں عزیز خان کے دمے کی تکلیف خاصی بڑھ جاتی تھی۔ گھر میں مصنوعی آکسیجن کابھی انتظام تھا۔ مگر ڈاکٹر ذوالقرنین انہیں اسپتال لے جانا چاہتے تھے تو ضرور معاملہ خاصا سیریس تھا۔
دل بے اختیار بیمار باپ کی طرف کھینچا۔ اس سے پہلے کہ دل پر اختیار نہ رہتا۔ اس نے دل کی دھڑکنوں کو پتھر کرتے ہوئے سرد انداز میں کہا۔
’’میرا ڈاکٹر کے سر پر کھڑا ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر ڈاکٹر ذوالقرنین انہیں اسپتال لے جانا چاہتے ہیںتو لے جائیں۔‘‘
’’تم زیادتی کررہی ہو رانی بیٹا!‘‘ عطا بابا لرزتی آواز میں شکوہ کناں ہوئے۔ ’’آخر تم خان صاحب کو کس جرم کی اتنی کڑی سزا دے رہی ہو؟‘‘
رائنہ کا سرد لہجہ برقرار رہا۔ ’’انہیں معلوم ہے اور آپ کو بھی…‘‘ ساتھ ہی اس نے نہ صرف لائن کاٹ دی بلکہ سیل فون بھی آف کردیا۔ عطا بابا کے سوال نے اس کے زخموں کو دوبارہ سے اُدھیڑ دیا تھا۔ تلخ و شیریں یادوں کے ایک جھرمٹ نے اسے گھیر لیا۔
بادل تو کئی دنوں سے گھرے ہوئے تھے۔ یک لخت ایک تڑاکے سے فضا پر چھایا سکوت ٹوٹ گیا۔ بادل زور سے گرجے تھے۔ اگلے چند لمحوں میں طوفانی بارش نے گاڑی کو ڈھانپ لیا تھا۔
سردیوں کی بارش تو اپنے اندر تسلسل اور دھیما پن رکھتی ہے، مگر رائنہ کے دل کی طرح موسم بھی طوفانی ہوگیا تھا۔
رائنہ نے گاڑی کا انجن چلا کر ہیٹر آن کردیا اور شال اپنے شانوں کے گرد لپیٹ لی۔ اس طوفانی بارش میں جب ونڈو اسکرین کے پار کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ جیسے دنیا سے کٹ گئی تھی اور یہ علیحدگی اسے اچھی لگ رہی تھی۔ اس نے آنکھیں موند لیں۔ یادوں کے جھرمٹ نے اسے مکمل طور پر ڈھانپ لیا۔

…٭٭٭…


اس دن بھی سرما کی بارش ہورہی تھی مگر تسلسل سے اور دھیمی دھیمی سی۔ رائنہ کو ایسے موسم سے عشق تھا۔ عزیز خان اس کے مزاج کے سارے رنگوں سے بخوبی واقف تھے۔ انہوں نے رائنہ کے اس عشق کے سبب اپنی وسیع و عریض کوٹھی کے دور تک پھیلے لان میں ایک گلاس روم تعمیر کروادیا تھا۔ ماسوائے چھت کے وہ سارے کا سارا شیشے سے بنا ہوا تھا۔ گرمیوں کی بارش اور خوش گوار موسم سے لطف اندوز ہونے کے لیے شیشے کی دیواروں میں کھڑکیاں بھی تھیں اور ان دیواروں کو دبیز پَردوں سے ڈھانپا بھی جاسکتا تھا۔
اس وقت پردے سمٹے ہوئے تھے اور کھڑکیاں بند تھیں۔ رائنہ دبیز ایرانی قالین پر کشن کے سہارے نیم دراز تھی، جدید ترین سائونڈ سسٹم پر دھیمی آواز میں ’’بھیگا بھیگا سا دسمبر ہے‘‘ بج رہا تھا اور اس کے قریب کاجو سے بھری ایک پلیٹ پڑی ہوئی تھی۔
کاجو چباتے ہوئے اس کی نظریں شیشے کی دیوار کے پار جامن کے درخت پر جمی ہوئی تھیں۔ جس کے پتّوں سے بارش کا پانی ٹپک رہا تھا۔ جامن کے درخت کے پار دور افق تک سرمئی بادلوں کے پرے کے پرے جمع تھے۔
گزشتہ دو دن سے رائنہ کا ذہن قدرے الجھا ہوا تھا۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی محرم کے شروع ہوتے ہی پاپا جانی فرانس چلے گئے تھے اور اپنی ساری الجھنیں وہ پاپا جانی سے ہی شیئر کرتی تھی اور اس دفعہ تو اپنی الجھن کے سبب وہ پاپا جانی کی ہرسال فرانس یاترا کو بھی ایک نئے زاویے سے دیکھ رہی تھی۔ اس کے ذہن میں یہ سوال جنم لے چکا تھا کہ پاپا جانی ہر سال مخصوص ایام میں ہی کیوں فرانس جاتے ہیں۔ یہ تو وہ پاپا جانی کی زبانی سن چکی تھی کہ وہ کاروباری سلسلے میں ہر سال فرانس جاتے ہیں مگر مخصوص ایام میں کیوں؟ اس سوال نے اب جنم لیا تھا۔
رائنہ کی الجھن کا آغاز اس وقت ہوا۔ جب وہ کالج میں بننے والی نئی فرینڈ اریبہ کے گھر گئی تھی۔ اریبہ کا گھر بھی اس کے گھر کی طرح سنسان تھا۔ اریبہ کے ابو ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں اچھے عہدے پر تھے اور شام گئے گھر آتے تھے۔ ایک بھائی تھا جو ایم بی بی ایس کے لیے چین میں ہوتا تھا۔ اریبہ کی امی بھی رائنہ کی طرح اس کے بچپن میں فوت ہوگئی تھیں۔
رائنہ کی خاطر تواضع کے بعد اریبہ اپنا فیملی البم لے آئی تھی۔ اس میں اریبہ کی امی کی بھی کئی تصویریں تھیں۔ ایک تصویر میں وہ ننّھی اریبہ کو گود میں لیے بیٹھی تھیں۔ اس تصویر کو دیکھتے ہوئے اریبہ کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس نے اپنی امی کی سنی ہوئی ڈھیروں باتیں رائنہ سے شیئر کیں۔ اسی وقت رائنہ کو یہ عجیب احساس ہوا کہ وہ تو اپنی ماں کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتی۔ اس نے کبھی ماں کی تصویر نہیں دیکھی تھی۔ حتیٰ کہ اسے تو اپنی ماں کا نام بھی معلوم نہیں تھا۔
گھر واپسی پر وہ جتنا سوچتی گئی اتنا الجھتی چلی گئی۔ اپنی ماں کے متعلق اس نے پاپا جانی سے صرف اتنا سنا تھا کہ وہ فرنچ تھیں اور پاپا جانی نے ان سے اس وقت شادی کی تھی جب وہ فرانس میں مقیم تھے۔ رائنہ کی پیدائش کے چند ماہ بعد وہ فو ت ہوگئیں اور پاپا جانی اسے لے کر پاکستان آگئے تھے۔
رائنہ کو اب محسوس ہورہا تھا کہ اس نے تو کبھی ماں کی کمی محسوس ہی نہیں کی تھی۔ پاپا جانی نے خود کو مکمل طور پر اس کے لیے وقف کردیا تھا۔ ان کی غیر موجودگی میں عطا بابا ہوتے تھے۔ تین عدد پھوپیاں بھی قریب ہی میں رہتی تھیں۔ بڑی پھوپو قدرے سخت اور مختلف مزاج کی تھیں۔ دونوں چھوٹی پھوپیاں تو اس پر جان چھڑکتی تھیں۔ پھر تینوں پھوپیوں کے کُل ملا کر سات بچے تھے۔ رائنہ کبھی وہاں تو کبھی وہ لوگ رائنہ کے گھر ہوتے تھے۔ سو اسے بہن بھائیوں کی کمی بھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔
مگر اب رائنہ کو یہ بات غیر فطری لگتی تھی کہ اس کی ماں کی ایک تصویر تک موجود نہیں ہے اور وہ ان کا نام تک بھی نہیں جانتی۔ پاپا جانی اور ماں کی شادی کے حالات بھی ایک دھند کے پیچھے اوجھل تھے۔ وہ اس سلسلے میں پاپا جانی سے بہت سے سوالات کرنا چاہتی تھی مگر وہ فرانس میںتھے اور فون پر ایسے سوالات کرکے وہ انہیں ڈسٹرب کرنا نہیں چاہتی تھی۔
پاپا جانی نے ایک دفعہ اسے بتایا تھا کہ وہ اپنی ماں کا عکس ہے۔الجھن کا شکار ہونے کے بعد اس نے کئی دفعہ آئینے میں اپنا جائزہ لیا تھا۔ اس کے بال شہد رنگ تھے اور آنکھیں گہری سبز تھیں۔ اکثر لوگ اسے فارنر سمجھ بیٹھتے تھے۔
اس نے زیادہ دیر آئینے میں اپنا جائزہ لیا تو آئینہ سرگوشیاں کرنے لگا۔ پھر آئینے ہی کے ایک کونے میں صمام کی گہری سیاہ اور بے حد چمک دار آنکھیں اُبھر آئیں۔ یہ ستائش بھری آنکھیں اس پر جمی تھیں۔ وہ گھبرا کر آئینے کے سامنے سے ہٹ گئی۔ اس کے شہابی رخسار دہک اُٹھے تھے۔
جامن کے درخت پر نظریں جمائے اچانک ہی اس کے ذہن میں جیسے جگنو سا چمکا تھا۔ اسے عطا بابا کا خیال آیا۔ اس نے سنا تھا کہ عطا بابا اس وقت سے ان کے گھر تھے۔ جب ان کی عمر محض آٹھ،دس سال کی تھی۔ ان کا دنیا میں آگے پیچھے کوئی نہیں تھا اور انہوں نے شادی بھی نہیں کی تھی۔ پاپا جانی کی طرح ان کی محبتوںکا محور و مرکز بھی رائنہ ہی تھی۔
رائنہ کو معلوم تھا کہ عطا بابا، پاپا جانی کے بے حد قریب تھے اور یہ ہو نہیں سکتا تھا کہ وہ اس کی ماں کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں۔
رائنہ کا ہاتھ کارڈیس انٹرکام کی طرف بڑھا۔ گلاس روم چونکہ مرکزی عمارت سے یکسر علیحدہ تھا۔ اس لیے یہاں یہ انتظام کیا گیا تھا۔
انٹرکام ہاتھ میں آنے سے پہلے ہی اس کا بزر بجنے لگا۔ رائنہ کے چہرے پر خودبخود مسکراہٹ اُبھر آئی۔ وہ جانتی تھی کہ دوسری طرف عطا بابا ہی ہوں گے۔ جو موسم کی مناسبت سے اس کے لیے پکوڑے تیار کروا چکے ہوں گے۔ اس کا اندازہ درست نکلا۔ اس کی آواز سنتے ہی عطا بابا نے کہا۔
’’رانی بیٹا! پالک کے پتّوں والے پکوڑے تیار ہیں۔ تمہارے لیے بھجوادوں؟‘‘
’’بابا! بھجوانہ دیں بلکہ آپ خود لے کر آجائیں۔ میرا آپ سے کہانی سننے کو جی چاہ رہا ہے۔‘‘ رائنہ نے ننھی بچی کی طرح ٹھنک کرکہا تھا۔ میٹرک تک وہ عطا بابا کی گود میں سر رکھ کر کہانیاں سنتی آئی تھی۔ کچھ دیر بعد اس نے عطا بابا کو دیکھا۔ ان کے ایک ہاتھ میں چھوٹا سا ہاٹ پاٹ تھا اور دوسرے سے انہوں نے چھتری سنبھالی ہوئی تھی۔ اَوور کوٹ کے اوپر انہوں نے گرم چادر بھی اوڑھ رکھی تھی، کچھ عمر کا تقاضا تھا، ویسے انہیں سردی بھی زیادہ لگتی تھی۔
تھوڑی دیر بعد جوتے باہر اُتار کر گلاس روم کا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوئے۔ دروازے کی طرف برآمدہ سا بنا ہوا تھا۔ چھتری بھی انہوں نے وہیں چھوڑ دی تھی۔
رائنہ نے اپنابے ترتیب دوپٹا شانوں پر درست کیا اور سیدھی ہو بیٹھی۔ ریموٹ کے ذریعے اس نے سائونڈ سسٹم بھی آف کردیا تھا۔ دروازہ کھلتے ہی ٹھنڈی ہَوا کا تندریلا ہیٹر کے سبب نیم گرم گلاس روم میں گھس آیا تھا۔
عطا بابا نے ہاٹ پاٹ رائنہ کے سامنے رکھا اور ایک ہلکی سی کراہ کے ساتھ اس کے سامنے بیٹھ گئے۔ انہیں ریڑھ کی ہڈی کا بھی کوئی پرابلم تھا۔ جس کے سبب انہیں اٹھتے بیٹھتے تکلیف ہوتی تھی۔
انہوں نے گرم چادر اُتار کر ایک طرف رکھتے ہوئے کہا۔ ’’بیٹا! یہ آج تمہیں کہانی کی کیا سوجھی؟‘‘
رائنہ نے ہاٹ پاٹ کا ڈھکن اُٹھا کر ایک پکوڑا نکالا۔ ’’بس بابا! جی چاہ رہا تھا۔‘‘ اس نے نیم گرم خستہ پکوڑے پر دانت آزمائے۔ ہاٹ پاٹ کے اندر ٹماٹو کیچپ کا ساشا بھی موجود تھا۔ وہ اسے کھولنے لگی۔
عطا بابا کا چہرہ خوشی کی پھوار سے بھیگ گیا تھا۔ انہیں اس کے لاڈ اٹھانا اور چھوٹی چھوٹی فرمائشیں پوری کرنا بے حد پسند تھا۔ انہوں نے بشاشت سے کہا۔
’’میری رانی بیٹی! کون سی کہانی سنے گی؟ سبز پری والی یا اس شہزادے والی جو سفید گھوڑے پر بیٹھ کر دور دراز سے ہماری بیٹی جیسی شہزادی کو اپنے دیس لے جانے کے لیے آتا ہے؟‘‘ پھر ان کا لہجہ معنی خیز ہوا۔ ’’میرا خیال ہے سفید گھوڑے والے اس شہزادے کی کہانی ہی مناسب رہے گی۔ جس کی شکل ہمارے صمام بیٹے سے ملتی جلتی تھی۔‘‘
صمام کے ذکر پر رائنہ کے عارض دہک اٹھے اور پلکیں خود بخود جھک گئیں۔ پھر اس نے ٹھنک کر کہا۔
’’نہیں بابا! مجھے کسی شہزادے وزادے کی کہانی نہیں سننی۔‘‘ اس نے کیچپ لگا کر پکوڑا منہ میں ڈالا اور دانت چلاتے ہوئے بڑے آرام سے عطا بابا کے گھٹنے پر سر رکھ دیا۔
عطا بابا ہیٹر کی طرف ہاتھ پھیلا کر گرم کرچکے تھے۔ انہوںنے رائنہ کے بال سہلاتے ہوئے کہا۔
’’تو پھر کون سی سنائوں؟‘‘
رائنہ باقی ماندہ پکوڑا حلق سے اُتار چکی تھی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر دوسرا پکوڑا اٹھایا اور بڑے اطمینان سے دھماکا کیا۔
’’میں آج مما اور پاپا جانی کی کہانی سنوں گی۔ وہ کیسے ملے؟ کن حالات میں ان کی شادی ہوئی؟ وغیرہ وغیرہ اور میری مما کی تصویریں وغیرہ اگر ہیں تو کہاں ہیں؟‘‘
عطا بابا اپنی جگہ سُن ہوکر رہ گئے تھے۔ رائنہ کے بال سہلاتا ان کا ہاتھ بھی جامد ہوگیا تھا۔ رائنہ نے فوراً ہی ان کی کیفیت کو محسوس کرلیا تھا۔ وہ سیدھی ہوبیٹھی۔
’’کیا ہوا بابا؟‘‘
عطا بابا کی آنکھ سے ایک آنسو نکل کر چہرے کی جھریوں میں کہیں کھوگیا۔ رائنہ تڑپ اُٹھی۔
’’بابا! کیا میں نے کچھ غلط کہہ دیا؟‘‘
عطا بابا نے نفی میں سرہلایا اور بھرائی آواز میں کہا۔ ’’شاید میری اور خان صاحب کی محبت میں کوئی کمی رہ گئی ہے۔ جو تمہیں ماں کا خیال آیا ہے۔ کیا ایسا ہی ہے بیٹا؟‘‘ ان کی کھوجتی نگاہیں رائنہ کے چہرے پر جم گئیں۔
رائنہ بے اختیار ان کے بازو سے لگ گئی اور شانے سے والہانہ انداز میں چہرہ رگڑتے ہوئے بولی۔
’’ایسا کچھ نہیں ہے بابا!‘‘ اس کا لہجہ بھی بھیگ گیا تھا۔ ’’یہ آپ کی اور پاپا جانی کی بے پایاں محبت تھی جس نے مجھے کبھی بھی مما کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔‘‘ پھر اس نے اپنی الجھن بیان کردی۔
عطابابا اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے سنتے رہے۔ وہ کسی گہری سوچ میں ڈوب گئے تھے۔ رائنہ خاموشی سے ان کے بولنے کی منتظر تھی۔ ان کے چہرے کی جھریوں میں وہ گزرا وقت دیکھنا چاہتی تھی۔ چند لمحوں بعد عطا بابا نے عمیق سانس لی اور دھیرے سے بولے۔
’’تم غلط بیانی نہ سمجھنا۔ میں بھی اس بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ خان صاحب کی زبان اس بارے میںہمیشہ خاموش ہی رہی ہے۔‘‘ رائنہ سُن سی ہوگئی۔ اسے یقین تھا کہ عطا بابا اس سے جھوٹ بلکہ کسی سے بھی جھوٹ نہیں بول سکتے۔عطا بابا سرجھکائے کہہ رہے تھے۔
’’میں بھی دوسروں کی مانند اتنا جانتا ہوں کہ فرانس سے واپسی پر وہ تمہیں ساتھ لائے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے فرانس میں ہی شادی کرلی تھی اور تمہاری ماں تمہاری پیدائش کے کچھ عرصہ بعد فوت ہوگئی تھیں۔ اس سے زیادہ انہوںنے کبھی کچھ نہیں بتایا۔‘‘ انہوں نے افسردہ سی سانس لے کر ایک انکشاف کیا۔ ’’خان صاحب کی فرانس روانگی سے پہلے تمہاری بڑی پھوپو عطیہ بیگم کی ان سے اس سلسلے میں بات ہوئی تھی۔‘‘ رائنہ کو زبردست دلچسپی محسوس ہوئی۔
’’پھر کیا بتایا انہوںنے؟‘‘ اس نے بڑے اشتیاق سے پوچھا تھا۔
’’عطیہ بیگم کے ڈھیر سارے سوالات کے جواب میں انہوں نے صرف ایک جواب دیا تھا۔‘‘ رائنہ ہمہ تن گوش ہوگئی۔ لحظہ بھر کے ڈرامائی وقفے کے بعد عطا بابا بولے۔ ’’انہوں نے کہا تھا، سب لوگوں کے لیے اتنی بات کافی ہونی چاہیے کہ رائنہ میری بیٹی ہے اور میرے دل کا ٹکڑا ہے۔‘‘
رائنہ اپنے باپ کی محبت کے احساس سے شرابور ہوگئی۔ اس کی آنکھوں کے گوشے بے اختیار بھیگ گئے۔ عطا بابا نے متفکر انداز میں کہا۔
’’میرا خیال ہے عطیہ بیگم خفاہوکر گئی ہیں۔‘‘
رائنہ پہلے چونکی۔ پھر وہ بھی متفکر ہوگئی۔ صمام بڑی پھوپو کا ہی اکلوتا بیٹا تھا۔ صمام اور اس نے چاہت کی سیڑھی پر پہلا قدم نا جانے کب رکھا تھا مگر بغیر کسی عہدو پیماں کے ایک ایک سیڑھی چڑھتے محبت کی سب سے بلند اور آخری منزل تک پہنچ چکے تھے اور سارا خاندان اس بات سے آگاہ تھا۔ بڑے ان دونوں کے حوالے سے سرگوشیاں کرتے دیکھے گئے تھے۔ ان دونوں کے یکجا ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی مگر اب بڑی پھوپو کے خفا ہوکر جانے کا خیال اندیشوں کو ہَوا دے رہا تھا پھر اس نے خود کو تسلی دی۔ یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے۔ بہن، بھائیوں میں معمولی رنجشیں ہوجاتی ہیں اور پاپا جانی کی واپسی کے بعد وہ ان کے گلے میں بانہیں ڈال کر اور سینے پر سر رکھ کے اپنی مما کے بارے میں سب کچھ معلوم کرلے گی۔ یہ سوچ کر وہ مطمئن ہوگئی۔
عطا بابا اسے مطمئن نہ کرسکنے کے سبب شرمندگی محسوس کررہے تھے اور سر جھکائے بیٹھے تھے۔ اپنے خیالات کی رو سے نکلتے ہی رائنہ ان کی طرف متوجہ ہوئی اور نیا سوال دا غ دیا۔
’’پاپا جانی محرم کا مہینہ شروع ہوتے ہی فرانس چلے جاتے ہیں۔ کیا واقعی وہ بزنس کے سلسلے میں جاتے ہیں؟ اور اگر یہ بات درست بھی ہے تو محرم کے مخصوص مہینے میں کیوں جاتے ہیں؟ ‘‘ اس نے باقاعدہ وکیلوں کے انداز میں جرح کرتے ہوئے دوسرا سوال بھی کردیا تھا۔
’’وہ واقعی کاروباری سلسلے میں جاتے ہیں مگر میرا خیال کہ وہ تمہاری ماں کی قبر پر قرآن خوانی اور دس محرم کو پھول وغیرہ بھی ڈالتے ہیں۔‘‘
رائنہ نے سوچ کر طمانیت کا سانس لیا کہ اس کی مما کم از کم مسلمان تو تھی۔ ورنہ آزاد خیال معاشرے میں پیپر میرج کرنے والے جوڑے اپنے اپنے مذاہب پر قائم رہتے ہیں۔
بہرحال اس کے دل میں اپنی ماں کے حوالے سے زبردست تجسّس بیدار ہوچکا تھا۔ اگلے دن اسی تجسّس کے زیر اثر وہ اپنی سب سے اچھی پھوپو خدیجہ بیگم کے گھر جادھمکی۔ خدیجہ بیگم اسے سب سے زیادہ پیار کرتی تھیں اور ان کی آغوش رائنہ کے لیے ہمیشہ سے پناہ گاہ تھی۔ ان کے چار بچے تھے اور رائنہ کی ان چاروں سے خوب بنتی تھی۔
قریب ہونے کے سبب رائنہ پیدل ہی آگئی تھی۔ جیسے ہی اس نے گیٹ سے اندر قدم رکھا، دس سالہ شجیل دوڑتا ہوا آکر اس سے لپٹ گیا۔ وہ پھوپو خدیجہ کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا۔ رائنہ نے اسے گود میں کھلایا تھا۔
’’آپی! آج آپ پورے تین دن اور چھ گھنٹے بعدہمارے گھر آئی ہیں۔‘‘ اس نے شکوہ کیا۔ اتوار ہونے کے سبب وہ اس وقت گھر میں تھا۔
رائنہ ہنسی۔ ’’تم نے پورا حساب رکھا ہوا ہے؟‘‘ ساتھ ہی اس نے شجیل کے بال بکھیرے۔ شجیل نے علیحدہ ہوتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
’’باقی سب کہاں ہیں؟‘‘ غیر معمولی خاموشی کے سبب رائنہ نے پوچھا۔
’’ممی، پاپا تو مارکیٹ گئے ہیں۔ باقی کمبلوں میں گھسے اور ٹی وی پر چڑھے ہوئے ہیں۔‘‘ اس نے کچھ اس طرح سے منہ بنایا تھا کہ رائنہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔ اسے یاد آیا کہ ٹی20 ورلڈ کپ شروع ہوچکا تھا۔ عدیل، صائم اور حرا کرکٹ کے دیوانے تھے۔ شجیل کو کرکٹ بالکل اچھی نہیں لگتی تھی۔ وہ فٹ بال کا شیدا تھا۔ رائنہ نے شجیل کے ساتھ پورچ کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’تم باہر سردی میں کیا کررہے ہو؟‘‘ بارش رُک چکی تھی مگر سردی کی شدت بدستور قائم تھی۔
’’آپ ہی کی طرف آرہا تھا۔‘‘ پھر اس کا انداز رازدارانہ ہوا۔ ’’دراصل میں نے عدیل بھائی، صائم اور حرا آپی کا ایک کارٹون بنایا ہے۔‘‘ اس میں قدرتی طور پر تصویریں بنانے کی صلاحیت تھی اور رائنہ کوبھی مصوری سے دلچسپی تھی۔ وہ شجیل کی حوصلہ افزائی کرتی رہتی تھی۔
’’اوہ… دکھائو!‘‘ رائنہ نے زبردست دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔
شجیل نے فوراً اپنی جیکٹ کی جیب سے ایک طے کیا ہوا کاغذنکال کر اس کی طرف بڑھایا۔ رائنہ نے پورچ کی سیڑھیوں میں رُک کر کمسن لڑکے کی ذہنی استعداد پر حیران رہ گئی۔ ایک ہی شکل کے تین دیوہیکل کارٹونز تھے۔جنہوںنے ٹی وی کو جکڑا ہوا تھا۔ ٹی وی پر کرکٹ میچ کو نمایاں کیا گیا تھا۔ ایک کونے میں دیوہیکل کارٹونز کی شکل کا ننھا سا کارٹون بھی نظر آرہا تھا۔ جس کے ہاتھوں میں فٹبال تھی۔ ایک جیسی شکلیں ان کے آپس میں خونی رشتے کو ظاہر کررہی تھیں۔ پیغام بے حد واضح تھا۔ کرکٹ کے شیدا بڑے بہن، بھائیوں کے ساتھ ساتھ ٹی وی پر ان چھوٹوں کا بھی حق ہے۔ جنہیں کرکٹ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
’’ونڈر فل یار! مجھے یقین ہے تم ضرور اس میدان میں نام پیدا کروگے۔‘‘ رائنہ نے حقیقی تحسین سے کہا۔ شجیل کے چہرے پر رنگ بکھر گئے۔ اپنی محنت کا صلہ اسے مل گیا تھا۔ بولا۔
’’آپی! میں سوچ رہاہوں۔ اسے بچوں کے ایک میگزین کوبھیج دوں۔‘‘
رائنہ نے چٹکی بجائی۔ ’’زبردست آئیڈیا ہے، اس کے بعد ہم ان تینوں کو شرمندہ بھی کرسکتے ہیں۔ خیر تمہارے گھر میں، میرے خیال میں ایک سے زیادہ ٹی وی ہیں، تم فٹ بال کے میچ دوسرے ٹی وی پر دیکھ سکتے ہو۔‘‘
شجیل نے بُرا سا منہ بنایا۔’’عام ٹی وی اور پلازمہ ٹی وی میں بہت فرق ہے۔‘‘ رائنہ نے بھنویں اُچکائیں۔
شجیل اِدھر اُدھر کی کچھ ہانک کر اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔ دیگر کزنز سے نمٹ کر اپنے کمرے میں آنے کی اس نے رائنہ کو خصوصی تاکید کی تھی۔
رائنہ ٹی وی لائونج میں داخل ہوئی تو عدیل بھنگڑا ڈال رہا تھا۔جب کہ صائم اور حرا کے منہ لٹکے ہوئے تھے۔ رائنہ کو دیکھتے ہی عدیل چہکا۔
’’آیئے… آیئے محترمہ! پہلے اپنی پیاری کزنوں کا دکھ بانٹیے اور پھر کچن میں جاکر ان کا ہاتھ بٹایئے۔‘‘رائنہ ہر معاملے میں عدیل کے مقابلے میں صائم اور حرا کی سائیڈ لیتی تھی۔ اسے اندازہ ہوگیا کہ ضرور عدیل نے کوئی میدان مارا ہے۔
’’کیا ہوا؟یہ صاحب اتنا اُچھل کیوں رہے ہیں؟‘‘ اس نے صائم اور حرا کی طرف دیکھتے ہوئے مکمل آگاہی چاہی اور فوراً ہی عدیل کے چھوڑے کمبل میںگھس گیا۔ حرا اور صائم کو اس کی موجودگی کے سبب کچھ ڈھارس بندھی۔ صائم نے کہا۔
’’ٹاس پر شرط لگی ہوئی تھی۔ عدیل ہارتا تو جاکر دہلوی والوں سے حلیم لے آتا۔‘‘
عدیل درمیان میں کودا۔ ’’اور یہ دونوں بیبیاں ہارتیں تو میرے لیے انڈوں کا حلوہ بناتیں۔ میں یعنی پاکستان ٹاس جیت گیا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے آنکھیں ماتھے پر رکھیں۔ ’’فوراً سے پہلے میرا کمبل چھوڑ دو اور کچن کی راہ لو۔ میں اتنے میں ابتدائی اَوور دیکھ لوں۔‘‘
رائنہ نے اَن سنی کرتے ہوئے بے پروائی سے کہا۔ ’’انڈوں کا حلوہ بھی بن جائے گا۔ پہلے ابتدائی اَوور کی تو ایک دو ’’فینی‘‘ کھیل لیں۔‘‘ صائم اور حرا نے فوراً ہی اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
عدیل نے کچھ کہنے کی کوشش کی تو تینوں نے شور مچا کر اسے بولنے کا موقع نہیں دیا۔ بڑی مشکل سے اس نے چیخ کر کہا۔
’’نو… نو… نو… پہلے انڈوں کا حلوہ پھر کوئی اور بات بلکہ مجھے بھی اپنی پارٹی کے بندے بلا لینے چاہئیں۔‘‘ اس نے ٹرائوزر کی جیب سے اپنا سیل فون نکالا۔
حرا نے فرضی آستینیں چڑھائی۔ ’’بلا لو… بلالو… اپنی اس کچھ لگتی اور ’’سالی‘‘ کو۔ ‘‘ اس نے سالی پر زور دے کر اور کچھ اس طرح دانت کچکچا کر کہا کہ صائم اور رائنہ ہنسنے لگیں۔ بعد میں حرا بھی اس ہنسی میں شریک ہوگئی۔
منجھلی پھوپو نجمہ کی بیٹی ثمان سے عدیل کی نسبت طے تھی اور چند ماہ تک شادی ہونے والی تھی۔ ثمان اور اس سے بڑی عائندہ کے ساتھ عدیل کی خوب بنتی تھی۔
عدیل جلے پیر کی بلی بنا ٹی وی لائونج میں ٹہل رہا تھا۔ رائنہ نے اس کا کمبل چھوڑنے سے صاف انکار کردیا تھا۔ سدا کی تابعدار بہن صائم نے بھی آنکھیں پھیر لی تھیں۔ مجبوراً اسے خود جاکر اسٹور میں سے کمبل لانا پڑا۔ میچ شروع ہوگیا تھا۔ پاکستان کی ٹیم بیٹنگ کررہی تھی۔ سبھی کی دلچسپی اس طرف مبذول ہوگئی مگر عدیل کا انڈوں کے حلوے کا واویلا جاری رہا۔ رائنہ نازل نہ ہوتی تو وہ میچ سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ حلوہ سے بھی لطف اندوز ہوتا۔
کچھ دیر بعد عدیل کو کمک میسر آگئی۔ ثمان نے آتے ہی شور مچادیا۔ ’’میرے ہونے والے مجازی خدا کے ساتھ اتنی زیادتی۔ کچھ خدا کا خوف کرو لڑکیو!‘‘ اس نے صائم اور حرا پر آنکھیں نکالیں۔ ’’اُٹھو! اور کچن میں گھس جائو۔ میرا دل بھی انڈوں کے حلوے کے لیے مچل رہا ہے۔‘‘ اس نے رائنہ کو بالکل نظر انداز کردیا تھا۔
رائنہ کا وجود تلخی سے بھرگیا۔ کچھ دنوں سے وہ محسوس کررہی تھی کہ یہ دونوں بہنیں اس سے کھنچی کھنچی سی رہنے لگی ہیں اور اسے دانستہ نظر انداز کردیتی ہیں۔ عائزہ کے نا آنے کی وجہ بھی یقینا اس کی موجودگی تھی۔
رائنہ کو یہ بھی معلوم تھا کہ آج کل عائزہ کا زیادہ تر وقت صمام کے گھر گزرتا تھا۔ عطیہ پھوپو کی وہ خاصی چہیتی تھی۔ شوگر کے سبب عطیہ پھوپو کی ٹانگوں میں درد رہتا تھا۔ عائزہ ان کی ٹانگیں دباتی بھی دیکھی گئی تھی۔ رائنہ ان خدمت گزاریوں کا مطلب خوب سمجھتی تھی۔
صائم اور حرا نے امداد طلب نظروں سے رائنہ کی طرف دیکھا۔ مگر اس نے کندھے اُچکادیئے۔ ثمان کے رویے کے سبب وہ بھی اس سے گریزاں تھی۔
عدیل کی تمام تر توجہ میچ کی طرف تھی۔ ثمان نے سرسری سے انداز میں رائنہ سے اپنے ماموں کی خیریت وغیرہ دریافت کی اور پھر عدیل کی طرف متوجہ ہوگئی۔
رائنہ جانتی تھی کہ اسے کرکٹ سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے ۔ مگر عدیل کی گہری دلچسپی کے سبب وہ بھی کرکٹ میں دلچسپی لینے لگی تھی۔
رائنہ نے وہاں سے اٹھ جانا ہی بہتر سمجھا۔ وہ شجیل کے کمرے میں چلی گئی۔
رات کووہ خدیجہ پھوپو کی بغل میں گھسی ہوئی تھی۔ عطا بابا کو اس نے فون کرکے بتادیا تھا کہ وہ رات کو وہیں رہے گی۔ ایسا اکثر ہی ہوتا تھا اور وہ سوتی بھی پھوپو کے ساتھ ہی تھی۔
پھوپو کی ہدایت پر اس نے گیس ہیٹر آف کرکے نائٹ بلب آن کیا اور دوبارہ سے پھوپو کے ساتھ کمبل میں گھس گئی۔ چند لمحے اس نے ذہن میں الفاظ تشکیل دیئے اور پھر گویا ہوئی۔
’’پھوپو! میری مما کے بارے میں آپ کو کتنا معلوم ہے؟‘‘
خدیجہ بیگم چونکی۔ پھر نا جانے کیا سوچ کر انہوں نے طویل سانس لیا اور بولیں۔
’’وہی جو سبھی جانتے ہیں۔ بھائی جان نے کبھی اس بارے میں کچھ بتایا ہی نہیں۔‘‘ پھر انہوں نے رائنہ کی طرف کروٹ لی اور اس کی پیشانی چوم کر کہا۔ ’’تجھے یہ خیال آج کیسے آگیا؟‘‘
اس نے اپنی الجھن پھوپو کے گوش گزار کردی اور یہ بھی بتادیا کہ اس موضوع پر پاپا جانی اور بڑی پھوپو کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوچکی ہے اور بڑی پھوپو خفا ہوکر ان کے گھر سے گئی تھیں۔یہ اطلاع پاکر خدیجہ بیگم بھی متفکر ہوگئیں۔ وہ رائنہ اور صمام کے معاملات سے بھی آگاہ تھیں اور یہ بھی جانتی تھیں کہ ان کی بہن نجمہ اور بھانجی عائزہ آج کل کس چکر میں لگی ہوئی ہیں۔ دوسری طرف وہ اپنی بڑی بہن کے مزاج اور خیالات سے بھی بخوبی آگاہ تھیں۔ ان کی انگلیاں رائنہ کے بالوں میں سرسرانے لگیں۔ انگلیوں سے کہیں زیادہ برق رفتاری سے ان کا ذہن چل رہا تھا۔ صمام اور رائنہ کے حوالے سے وہ بے حد متفکر اور پریشان ہوگئی تھیں۔
عطیہ بیگم اس نظریے کی حامی تھیں۔ باپ پر بیٹا، پتا پر گھوڑا زیادہ نہیں تو تھوڑا۔ اسی طرح ان کا خیال تھا کہ بیٹیاں بھی مائوں کا عکس ہوتی ہیں۔ بہت زیادہ نہیں تو کچھ نہ کچھ تو مائوں کی فطرت اور مزاج و عادات کا پر تو ان میں نظر آتا ہی ہے۔
اس حوالے سے وہ صمام اور رائنہ کے رشتے پر کئی تحفظات رکھتی تھیں۔ خدیجہ بیگم کا دل اچانک ہی لرزنے لگ گیا۔ انہیں کئی سال پہلے کی ایک بات یاد آگئی تھی۔ عطیہ بیگم نے کہا تھا کہ ممکن ہے رائنہ ان کی ناجائز اولاد ہو۔ اس لیے بھائی صاحب اس کی ماں کے بارے میں کچھ نہیں بتاتے۔ اس بات سے خاندان کے اور بھی کئی لوگ واقف تھے۔ خدیجہ بیگم کو یوں محسوس ہوا۔ جیسے زیر زمین ڈھیروں لاوا اُبل چکا ہے اور باہر نکلنے کی راہ ڈھونڈ رہا ہے۔ آتش فشاں کسی بھی وقت پھوٹ سکتا تھا۔
خدیجہ بیگم کو اس معصوم سی بھتیجی پر بے طرح ترس آیا۔ ان کا شفقت بھرا لمس پاتے ہی اس کی آنکھیں بند ہوگئی تھیں اور ننھی سی بچی کی مانند وہ ان کے بازو سے لپٹی ہوئی تھی۔ وہ گھر کی پلی بڑھی بیٹی تھی۔ ممکن ہے اس کی ماں کی فطرت میں کوئی کمی ہو، مگر وہ تو شبنم کی طرح پاکیزہ فطرت کی مالک تھی۔ ڈھونڈنے سے بھی اس میں کوئی عیب و بُرائی نہیں مل سکتی تھی۔ اس کے ذہن کے کورے کا غذ پر صرف صمام کا نام لکھا ہوا تھا مگر منہ زور اور اپنی بات پر ڈٹ جانے والی فطرت کی مالک عطیہ بیگم کی آنکھوں پر تو اپنے نظریئے کی پٹی بندھی تھی اور وہ ہرصورت رائنہ کی ماں کے بارے میں جاننا چاہتی تھیں۔
خدیجہ بیگم کو اپنے بڑے بھائی پر بھی غصہ آرہا تھا۔ جنہوں نے خوامخواہ ہی اس معاملے کو پُراسرار بنادیا تھا۔ان کی طویل ہوتی خاموشی کے سبب رائنہ نے کہا۔
’’کیا سوچ رہی ہیں پھوپو؟‘‘ اس کی آنکھیں بدستور بند رہی تھیں۔ ماں جیسی محبت کرنے والی پھوپو کی انگلیاں جیسے اس کی الجھنیں کھینچ رہی تھیں۔ وہ بڑی طمانیت و سکون محسوس کررہی تھی۔
’’کچھ نہیں!‘‘ خدیجہ بیگم نے روایتی جواب دیا اور مزید کہا۔ ’’تو زیادہ فکریں نہ پال۔ تمہارے پاپا آجائیں، میں ان سے سب کچھ معلوم کرلوں گی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے ان کا لہجہ اعتماد سے عاری تھا۔ عزیز خان، رائنہ کے بچپن میں ایسی کئی کوششیں ناکام بناچکے تھے۔
رائنہ نے مطمئن ہوکر ان کے گلے میں بازو ڈال دیا۔ اسے تھپکتے ہوئے خدیجہ بیگم کو ایک خیال آیا۔ اس خیال کے سبب انہوں نے رائنہ سے کہا۔
’’صمام سے تیری ملاقات کب ہوئی ہے؟‘‘
صمام کے ذکر پر رائنہ کی دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگی۔
’’اسلام آباد روانگی سے ایک دن پہلے گھر آیا تھا۔‘‘رائنہ سرخ ہوگئی۔ پھوپو کی بغل میں سر دیتے ہوئے اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
صمام نے امریکن اسٹوڈنٹ ویزے کے لیے اپلائی کیا تھا۔ امریکی سفارت خانے کی طرف سے انٹرویو کی کال آئی تھی اور اسی سلسلے میں وہ اسلام آباد گیا تھا۔
خدیجہ بیگم نے اسے سمجھانے والے انداز میں کہا۔ ’’وہ واپس آجائے تو ذرا اس کے کان کھینچ۔ اس کے امریکہ جانے سے پہلے تم دونوں کے رشتے کاباضابطہ اعلان ہوجانا چاہیے۔اسے بول رشتے کے لیے اپنی ماں کو تیرے گھر بھیجے۔ اس کی ماں کے دل میں اگر کچھ ہے تو وہ بھی سامنے آجائے گا۔‘‘ خوشی کا متوازن جھولا اچانک ہی ڈگمگانے لگا تھا۔ اندیشوں نے یلغار کردی۔ رائنہ نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔
’’میںاسے صبح ہی کہہ دیتی ہوں۔‘‘
خدیجہ بیگم نے اس کے سر پر آہستہ سے چپت لگائی۔
’’اری پاگل! اسے آجانے دے۔ ایسی باتیں فون پر کرنا مناسب نہیں ہے۔‘‘
کچھ دیر بعد رائنہ سوچکی تھی۔ مگر خدیجہ بیگم کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔ صمام بے حد خوبرو اور پُر اعتماد نوجوان تھا۔ اس کی اور رائنہ کی جوڑی بلاشبہ چاند سورج کی جوڑی تھی۔ مگر ایک بات خدیجہ بیگم کو پریشان کررہی تھی۔ ان کی بڑی بہن عطیہ بیگم دبنگ اور اپنی بات منوالینے کی بھرپور اہلیت رکھتی تھیں۔صمام پر اپنی ماں کا اثر بہت گہرا تھا۔ خود اعتمادی سے بھر پور صمام آج بھی ماں کے سامنے محض چند سال کا بچہ ہی تھا۔ ماں کی موجودگی میں وہ دب سا جاتا تھا۔
خدیجہ بیگم یہ سوچ کر مزید پریشان ہوگئیں کہ اگر صمام کو اپنی ماں کے سامنے رائنہ کا مقدمہ لڑنا پڑا تو وہ لڑنے کا حق ادا نہیں کرپائے گا۔
خدیجہ بیگم نے اپنی معصوم بھتیجی کے لیے خدا سے ڈھیروں دعائیں مانگیں اور پھر سونے کی کوشش میں لگ گئیں۔


…٭٭٭…


صمام واپس لوٹا تو بے حد خوش تھا۔ اسے یقین تھا کہ وہ انٹرویو میں کامیاب رہا اور اسے امریکن ویزا مل جائے گا۔ رائنہ بھی اس کی خوشی میں خوش تھی۔ مگر اس کی چار سالہ جدائی کا خیال بھی سوہان روح تھا،وہ چپکے چپکے کئی دفعہ آنسو بہاچکی تھی۔
اس وقت بھی وہ دونوں لانگ ڈرائیور پر نکلے ہوئے تھے۔ رائنہ اس کی خوش مزاجی کا بھرپور ساتھ دے رہی تھی مگر یہ خوشی بغیر روح کے تھی۔ کچھ دیر بعد صمام نے اس بات کو محسوس کرلیا۔ اس نے سر گھما کررائنہ کی طرف بغور دیکھا اور پھر رفتار کم کرتے ہوئے کہا۔
’’اوئے، کیا بات ہے؟ مجھے محسوس ہورہا ہے تمہیں کوئی بات پریشان کررہی ہے؟‘‘
تنہائی میں جب وہ رائنہ کو ’’اوئے‘‘ کہہ کر مخاطب کرتا تھا تو رائنہ کو بہت اچھا لگتا تھا۔ اس پل بھی ایسا ہی ہوا۔ اس نے خوش گوار انداز میں کہا۔
’’اونہہ! تمہیں ایسا محسوس ہوا۔‘‘
ایک خیال صمام کو شریر کرگیا۔ ’’لگتا ہے تمہیں کو میری چار سالہ جدائی کے خیال نے اندر ہی اندر افسردہ کیا ہوا ہے۔رائنہ خاموش رہی۔
’’ایسا ہی ہے نا؟‘‘ اس کی والہانہ نظریں رائنہ پرجمی تھیں۔
رائنہ کو آنسوئوں کا گولا حلق میں پھنستا محسوس ہوا۔ اس کی آنکھیں تیزی سے سرخ ہوتی چلی گئیں۔ صمام نے لب بھینچتے ہوئے ایک مناسب سی جگہ دیکھ کر گاڑی سڑک سے نیچے اُتار کر روک دی۔اردگرد ویرانی تھی۔ صمام نے اس کا گلابی گداز اور زندگی کی حرارت سے بھرپور ہاتھ تھام کا سہلایا۔
’’تم سے چار سالہ جدائی کا خیال میرے دل کو تڑپا رہا ہے۔‘‘ اس کی آواز میں بے پناہ جذبوں کی شدتیں تھیں۔ ’’امریکہ جاکر اپنی تعلیم مکمل کرنا میرا خواب ہے، مگر یہ خواب تمہارے آنسوئوں کی قیمت پر مجھے قبول نہیں۔ میں امریکہ نہیں جائوں گا۔‘‘ اس نے قطعی انداز میں کہا۔
رائنہ کے لیے آنسو روکنا ممکن نہیں رہا۔ اس نے بے اختیار صمام کے شانے پر سر رکھ دیا۔ صمام کی انگلیاں اس کے شہد رنگ بالوں میں سرسرانے لگیں۔ رائنہ نے ہچکیوں کے ساتھ کہا۔
’’تم ضرور امریکہ جائو میں تمہارا انتظار کروں گی۔ مگر مجھے ڈر لگتا ہے۔‘‘ اس کی قربت صمام کو پگھلا رہی تھی۔ اس کے باوجود وہ شوخ ہوا۔
’’بے فکر رہو، کوئی میم مجھے اپنے چنگل میں نہیں پھنسا سکتی۔ میں تو پہلے ہی پھنسا ہوا ہوں۔‘‘
رائنہ نے اس کے شانے سے سر اٹھایا۔صمام اسے تکے ہی گیا۔ آنسوئوں سے بھیگا چہرہ، متورم آنکھیں اور تھر تھراتے گلابی لب۔ اس نے گہرا سانس لے کر خود کوسنبھالا۔ رائنہ کسی اور کیفیت میں تھی۔ عام حالات میں تو وہ اس کی نظروں کا زاویہ بدلتے ہی سرخ ہونے لگ جاتی تھی۔
رائنہ نے کہا۔ ’’مجھے کسی میم سے نہیں تمہاری مما سے ڈر لگتا ہے۔‘‘
صمام بات کی تہہ تک نہیں پہنچا تھا۔ اس کا شوخ انداز برقرار رہا۔ میری مما اور تمہاری عزیز از جان پھوپو کے لیے یہ انکشاف ہوگا۔ رائنہ نے خود کو سنبھال کر اسے گھورا۔ صمام نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
’’تم نے مجھے پریشان کردیا ہے۔ ایسی کیا بات ہوگئی کہ تم مما سے ڈرنے لگی ہو؟‘‘ اس کی استفہامیہ نظریں رائنہ پر جم گئیں۔ رائنہ نے ٹشو سے چہرہ صاف کرتے ہوئے کہا۔
’’بڑی پھوپو، میری مما اور پاپا کی پُر اسرار شادی کو بہت اہمیت دینے لگی ہیں۔ وہ میری مما کا بیک گرائونڈ جاننا چاہتی ہیں۔ نا جانے ان کی نظروں میں یہ معاملہ کیوں اتنا اہم ہوگیا ہے۔ میں انہی کی گود میں کھیل کر جوان ہوئی ہوں۔ انہیں مجھے دیکھنا چاہیے، آخر میں ان کی بھتیجی ہوں۔‘‘ رائنہ الجھ سی گئی تھی۔ ’’خدا جانے ان کے دل میں کیا ہے۔ مجھے اندیشے اور وسوسے پریشان کرتے ہیں۔‘‘
صمام متفکر سا اسے دیکھے جارہا تھا۔ ماں کے خیالات سے وہ چند دن پہلے ہی آگاہ ہوا تھا۔ اگر وہ خیالات رائنہ تک پہنچ جاتے تو رائنہ ہمیشہ کے لیے ان سے متنفر ہوجاتی۔

descriptioncompleteRe: غلط فہمی- 1

more_horiz
Thanks For Nice
Sharing.....

descriptioncompletespa in british virgin island

more_horiz
Thanks for this information.

descriptioncompleteRe: غلط فہمی- 1

more_horiz
privacy_tip Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum
power_settings_newLogin to reply