Presmurdu - Pakistani Urdu Forum | urdu shayari | Urdu Islam | Design Urdu Poetry
Aslam-O-Alekum
mhotram guest ager ap www.presmurdu.com k member hain tu yahan sa login hun....
ager ap member nahi hain tu yahan sa ap humara es forum ma Register ho sakta hain.......





















Presmurdu - Pakistani Urdu Forum | urdu shayari | Urdu Islam | Design Urdu Poetry
Aslam-O-Alekum
mhotram guest ager ap www.presmurdu.com k member hain tu yahan sa login hun....
ager ap member nahi hain tu yahan sa ap humara es forum ma Register ho sakta hain.......




















Presmurdu - Pakistani Urdu Forum | urdu shayari | Urdu Islam | Design Urdu Poetry
Would you like to react to this message? Create an account in a few clicks or log in to continue.

Presmurdu - Pakistani Urdu Forum | urdu shayari | Urdu Islam | Design Urdu PoetryLog in

descriptioncompleteاعتبار وفا

more_horiz
اعتبار وفا … عابدہ سبین



لوگ کہتے ہیں کہ رانگ نمبرز رانگ ہوتے ہیں مگر کبھی کبھی یہ رانگ نمبرز رائٹ مین سے بھی ملوا دیتے ہیں۔ جیسے اس کے ساتھ ہوا تھا۔ شاہ ویز سے رانگ نمبر پر ہی اس کی بات چیت ہوئی تھی۔ کئی دن سے ایک ہی نمبر سے مسلسل اسے ایس ایم ایس آرہے تھے اور مس کالز بھی جب اس کی برداشت جواب دینے لگی تو اس نے وہ نمبر ڈائل کیا۔ دو تین بیلز کے بعد ادھر سے کال ریسیو کرلی گئی۔
’’ہیلو۔‘‘ مردانہ بھاری دل کش آواز اس کے کانوں میں گونجی تھی لمحہ بھر کو اس کے ہاتھ لرزے مگر پھر غصہ عود کر آیا۔
’’ہیلو دیکھیے مسٹر…!‘‘
’’سوری‘ میم میں فون پر نہیں دیکھ سکتا ابھی میرے پاس یہ سہولت نہیں ہے۔‘‘ آواز جتنی اچھی تھی اتنا بھونڈا مذاق تھا۔ اس کا خون مزید کھول گیا۔
’’اے مسٹر! زیادہ جو کر بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ آپ میرے نمبر پر ایس ایم ایس اور مس کالز کیوں کر رہے ہیں؟‘‘
’’میں اور ایس ایم ایس…؟‘‘ وہ واقعی حیران تھا۔ کیونکہ آج کل جو یہ ایس ایم ایس پیکیچ چل رہے تھے اس سے وہ خود بہت چڑتا تھا۔ موبائل کا بے جا استعمال اسے سخت نا پسند تھا اور یہ میڈم کہہ رہی تھیں کہ اس کے نمبر سے میسجز آرہے ہیں۔
’’آپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے‘ میرے نمبر سے ایس ایم ایس نہیں آسکتے۔‘‘ اس نے وضاحت دینی چاہی۔
’’گویا آپ کہہ رہے ہیں کہ میں بکواس کر رہی ہوں۔ یہ نمبر آپ کا ہی ہے نا۔‘‘ اس نے شاہ ویز کا نمبر دہرایا۔ وہ حیران رہ گیا پھر اسے یاد آگیا کہ کل سے ذوبی کا نمبر آن ہوا ہے پچھلے کئی دن بند رہا ہے اور یہ ایس ایم ایس کی بیماری ان کے گھر میں صرف اسے تھی۔ ظاہر ہے پھر اس نے ہی شاہ ویز کے نمبر سے ایس ایم ایس کیے ہوں گے۔
’’ہاں نمبر میرا ہی ہے۔ آئی ایم سوری میں…! یہ یقیناً میری بہن کی حرکت ہے۔ میں بہت شرمندہ ہوں۔ آئندہ سے ایسا نہیں ہوگا۔‘‘ شائستہ انداز اور خوب صورت لب و لہجے میں وضاحت کرتے ہوئے وہ معذرت بھی کر رہا تھا۔
’’کوئی بات نہیں۔‘‘
وہ صرف اتنا ہی کہہ سکی اور لائن کاٹ دی۔ شاہ ویز کو اب ذوبی پر غصہ آرہا تھا۔ وہ اسے ڈھونڈتا ہوا اس کے کمرے میں ہی آگیا۔ وہ اب بھی اپنا پسندیدہ کام کر رہی تھی۔
’’ذوبی کی بچی یہ تم نے میرے نمبر سے بھی لوگوں کو ایس ایم ایس کیے ہیں وہ بھی رانگ نمبر پر…!‘‘
’’قسم لے لیں بھیا! میں نے کسی رانگ نمبر پر ایس ایم ایس نہیں کیے صرف اپنی دوستوں کو کیے تھے۔‘‘
’’تب ہی ایک عدد میڈم نے خوب بے عزتی کی ہے میری۔‘‘ وہ چیخا۔ ’’آئندہ اگر تم نے میرے نمبر سے کوئی فضول ایس ایم ایس یا کال کی تو بہت برا ہوگا۔‘‘
’’بھیا! آپ بھی خوامخواہ خفا ہو رہے ہیں۔ قسم لے لیں۔ میں نے صرف اپنی دوستوں کو آپ کے نمبر سے ایس ایم ایس کیے تھے۔‘‘
’’لیکن ان کے لیے تو میرا نمبر نیا ہی ہوگا۔ تم نے یہ تو نہیں بتایا نا انہیں کہ یہ نمبر تمہارے بھائی کا ہے۔‘‘
’’اوہو۔‘‘ اس نے سر پیٹا۔‘‘
’’سوری بھیا!‘‘
یہ ہی غلطی ہوئی تھی اس سے تبھی بھیا خفا ہو رہے ہیں۔ یقیناً اس کی کسی دوست نے بھیا کو کال کر کے برا بھلا کہا ہوگا ورنہ وہ کبھی اتنا نہ بگڑتے ۔ وہ اسے گھورتے دروازہ پٹختے چلے گئے اور وہ تاسف سے سر ہلانے لگی۔

…٭٭٭…


وہ یونیورسٹی سے لوٹی تھی تبھی بیل ہوئی۔ وہ اس دن والا ہی نمبر تھا۔ اتنے دن بعد بیل مستقل ہو رہی تھی۔ مجبورا اسے اوکے کرنا پڑا۔ ’’ہیلو۔‘‘
’’کیسی ہیں آپ؟‘‘ وہ ہی دل کش آواز تھی مگر یہ بے تکلف کیوں ہو رہا ہے۔ اس دن تو کتنی تمیز سے معافی مانگی تھی۔
’’کیا مسئلہ ہے‘ آج پھر آپ نے میرے نمبر پر کال کی؟‘‘
’’بس ویسے ہی دل چاہا آپ کی ڈانٹ سننے کو۔ سو کر لیا۔‘‘
’’کیا…! بہت بد تمیز آدمی ہیں آپ تو…!‘‘
’’نہیں پلیز‘ مجھے غلط نہ سمجھیں میں بد تمیز ہرگز نہیں ہوں۔ آپ کا نمبر میرے موبائل میں رہ گیا تو بس یوں ہی میں نے کال کرلی۔‘‘
’’آپ ہر لڑکی کو ’’یوں ہی‘‘ کال کرلیتے ہیں؟‘‘
’’پلیز آپ مجھے غلط سمجھ رہی ہیں۔ میں ایسا ہر گز نہیں ہوں۔ مجھے آپ کی آواز اور لہجہ پسند آیا تھا۔ سو بات کرنے کو من چاہا لیکن آپ تو میری توہین کر رہی ہیں۔‘‘ وہ بہت سنجیدہ ہوگیا تھا۔ وہ جواباً کچھ کہہ نہ سکی۔ ’’میں نہیں جانتا کہ آپ کا کیا نام ہے اور آپ کون ہیں۔ میں تو صرف آپ سے فرینڈ شپ کرنا چاہتا تھا۔ اگر آپ کی نظر میں‘ میں اچھا انسان ہوں تو مجھے صرف ایک کال کر دیجیے گا۔ میں منتظر رہوں گا۔‘‘
اپنی بات مکمل کر کے اس نے فون بند کردیا تھا اور تسمیہ کے لیے سوچیں چھوڑ دیں۔ اس نے بہت کوشش کی کہ اس کی آواز اور باتیں ذہن سے نکل جائیں مگر ایسا نہ ہوا۔ آخر وہ دل سے ہار گئی اور اس نے شاہ ویز کے نمبر پر مس کال کردی۔ اس وقت رات کے گیارہ بج رہے تھے اسے امید نہیں تھی کہ وہ جاگا ہوا ہوگا لیکن اس کی بیل کے دو منٹ بعد ہی اس نے کال کرلی۔ جانے کیوں ریسیو کرتے ہوئے اس کے ہاتھ کپکپائے تھے۔
’’ہیلو…!‘‘
’’بہت انتظار کرایا آپ نے ۔ پورے اڑتالیس گھنٹے۔ جانتی ہیں میں نے یہ دو دن کس طرح گزارے؟‘‘ اس کی آواز گونجی مگر وہ جواب میں کچھ نہ کہہ سکی۔
’’آپ مجھ سے فرینڈ شپ کیوں کرنا چاہتے ہیں؟‘‘ اس نے ہمت کر کے پوچھا اور پھر بات سے بات نکلتی چلی گئی۔ یوں ان کی دوستی کا آغاز ہوا تھا۔
شاہ ویز بہت سلجھا ہوا انسان تھا۔ آج کل کے لڑکوں والی اس میں کوئی بات نہیں تھی۔ وہ بہت تہذیب اور اخلاق کے دائرے میں گفتگو کرتا تھا۔ روز رات کو اس سے بات کرنا تسمیہ کی عادت بن گئی تھی اور جس دن وہ فون نہ کرتا تو وہ خود کرلیتی اگر وہ مصروف ہوتا تو اٹینڈ نہیں کرتا۔ تب وہ بہت اداس ہوجاتی تھی۔ ان کی دوستی کو کئی ماہ بیت گئے اور اب یہ فرینڈ شپ محبت کے روپ میں ڈھل گئی تھی اور وہ دونوں ہی جانتے تھے کہ اب وہ ایک دوسرے کے لیے جیتے ہیں۔ تسمیہ منتظر تھی کہ وہ کچھ کہے گا۔ اظہار کرے گا اور جلد ہی اس کی خواہش پوری بھی ہوگئی۔
’’تسمیہ! میں نے تم سے دوستی کا آغاز کیا لیکن مجھے لگتا ہے کہ تم میری زندگی بن گئی ہو۔ میں تمہارے بنا نہیں رہ سکتا۔‘‘ اس کے اقرار پر دھنک رنگ بکھرے تھے چہرے پر‘ مگر لبوں سے کچھ نہ کہہ سکی۔ ’’تم کچھ نہیں کہو گی۔ تسمیہ!‘‘ وہ پھر بھی خاموش رہی۔ ’’پلیز کچھ تو کہو‘ تم میرے جذبوں میں میری ہم سفر ہو نا۔‘‘
’’ہاں…!‘‘ اس نے صرف ایک لفظ کہہ کر فون بند کردیا۔ شاہ ویز کے لیے اس کی ہاں ہی کافی تھی۔ یوں وہ دونوں محبت کے سفر پر گامزن ہوگئے۔ ایک دوسرے کو دیکھے بنا ہی وہ ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جان گئے تھے۔ ایک سال سے زیادہ بیت گیا تھا انہیں بات کرتے ہوئے۔ تسمیہ کی پڑھائی مکمل ہوگئی اور آج کل وہ قطعی فارغ تھی۔ تسمیہ نے اپنی کسی دوست سے شاہ ویز کا ذکر نہیں کیا تھا۔ آج کل شاہ ویز کی ایک ہی ضد تھی کہ کب تمہارے گھر رشتہ بھیجوں اور وہ ابھی مان نہیں رہی تھی۔


…٭٭٭…


’’بہت بے وفا ہو تم‘ جامعہ سے کیا چھٹی ہوئی تم نے تمام دوستوں کو بھلا دیا؟ اگر آج بھی میں بیماری کا بہانہ نہ بناتی تو تم نہیں آتے۔‘‘
زوبیہ اسے سخت سست سنا رہی تھی۔ جسے وہ صرف مسکرا کر سن رہی تھی کیونکہ وہ سچ ہی تو کہہ رہی تھی۔ شاہ ویز کے بعد اب اکثر ہی وہ دوستوں کو فون تک کرنا بھول جاتی تھی۔
’’ویری سوری ڈیئر۔‘‘ اس نے کان پکڑے تو زوبیہ کی خفگی بھی دور ہوگئی۔ کافی دیر وہ باتیں کرتی رہیں۔ تسمیہ نے وقت دیکھا تواسے یہاں آئے ہوئے تقریباً دو گھنٹے ہوچکے تھے۔


’’زوبیہ! میں چلتی ہوں‘ بہت دیرہوگئی ہے۔ امی پریشان ہوں گی۔‘‘
’’اکیلی چلی جائو گی؟‘‘
’’ظاہر ہے‘ اب اکیلے ہی جائوں گی۔ عمران تو آئے گا نہیں اتنی مشکل سے تو چھوڑ کر گیا تھا۔ اب تو ویسے بھی وہ جا چکا ہوگا۔ اس کا میچ تھا نا…!‘‘
’’میں بڑے بھیا سے کہوں؟ وہ تمہیں ڈراپ کردیں گے۔‘‘
’’نا بابا نا ہرگز نہیں۔ میں اکیلی ہی چلی جائوں گی۔‘‘
’’کتنی بری ہو تم میرے بھیا بہت اچھے ہیں۔‘‘
’’ہوں گے مگر دیکھنے والے انسان کے اندر اتر کر باتیں نہیں بناتے‘ وہ صرف سامنے نظر آنے والی چیز دیکھتے ہیں اور میں ایسا ہر گز نہیں چاہتی۔‘‘
’’تم نا بہت ڈرپوک ہو۔‘‘
’’جو کہو میں ایسی ہی ہوں۔‘‘ وہ دونوں باتیں کرتی باہر آرہی تھیں جب بڑے بھیا نظر آئے۔
’’بڑے بھیا…!‘‘ زوبیہ نے تسمیہ کے منع کرنے کے باوجود بھی پکار لیا۔ وہ ان کے پاس آگئے تو مجبوراً تسمیہ کو سلام کرنا پڑا۔
اس نے جواباً سر ہلا دیا۔
’’بھیا یہ میری دوست ہے تسمیہ ثاقب…!‘‘ شاہ ویز نے بری طرح چونک کر اسے دیکھا تھا۔ کتنی حیرت کی بات تھی ایک سال سے زیادہ ہوگیا تھا انہیں ایک دوسرے سے بات کرتے اور وہ آج اس دشمن جاں کو دیکھ رہا تھا۔ جس کے چہرے پر عجیب سی سنجیدگی اور بے زاری چھائی ہوئی تھی۔
’’آپ اسے ڈراپ کردیں گے۔‘‘
’’نو‘ پلیز! میں چلی جائوں گی۔‘‘ وہ عجلت سے کہتے ہوئے آگے بڑھی۔ شاہ ویز نے زوبی کو دیکھا۔
’’تم اندر جائو میں چھوڑ آتا ہوں اسے۔‘‘ اس نے زوبیہ سے کہا پھر تیزی سے دروازے سے باہرجاتی ہوئی تسمیہ کی طرف لپکا۔
’’تسمیہ! میری بات سنو۔‘‘ یہ آواز اور لہجہ؟ وہ پلٹی زوبی کا بھائی اس کے پیچھے آرہا تھا مگر آواز تو شاہ ویز جیسی تھی۔
’’بہت بڑی احمق ہو تم…! تمہیں کیا لگتا ہے اکیلے جانا زیادہ اچھا ہے۔ مجھ پر اعتبار کرنے سے بھی زیادہ…؟‘‘ وہ پیشانی پر شکنیں لیے اسے گھورتے ہوئے بولا۔
’’آپ…؟‘‘ وہ ابھی تک بے یقین سی تھی۔
’’کیا… آپ…؟‘‘
’’میں شاہ ویز ہی ہوں۔ بہت بڑی بے وقوف ہو تم… اتنی بے رخی…!‘‘
’’مجھے کیا پتا تھا کہ آپ ہیں۔ میں ہر بندے پر بھروسا نہیں کرسکتی۔‘‘
’’چپ رہو۔‘ چلو اب۔‘‘
وہ بائیک اسٹارٹ کرتے ہوئے بولا۔ تسمیہ جانتی تھی کہ وہ غصے میں بات نہیں کرتا۔ اس لیے خاموشی سے بیٹھ گئی۔

…٭٭٭…


اگلے دن ہی شاہ ویز اسے فون پر بتا رہا تھا۔
’’بہت جلد امی تمہارے گھر آئیں گی۔‘‘


’’شاہ ویز آپ نے انہیں بتا دیا؟‘‘
’’کیوں… بتانا نہیں تھا کیا؟‘‘
’’لیکن میرے گھر والے…؟‘‘
’’کیا مطلب یار! لڑکیوں کے رشتے آتے رہتے ہیں اور یوں بھی زوبی کے حوالے سے ہی سہی۔ تمہارے گھر والے ہمیں جانتے تو ہیں۔ وہ یقیناً مان جائیں گے۔‘‘
’’آپ نا ہر کام بہت جلد بازی سے کرتے ہیں۔‘‘
’’تسمیہ! ڈیڑھ سال ہوچکا ہے ہماری دوستی کو۔ تمہیں اب بھی لگتا ہے کہ جلدی ہے۔ اگر مجھے پہلے یہ بات پتا ہوتی کہ تم زوبی کی بیسٹ فرینڈ ہو تو شاید اب تک تم میرے قریب ہوتیں۔ میں اس وقت تم سے فون پر بات نہ کررہا ہوتا۔‘‘ وہ بول رہا تھا مگر تسمیہ خاموش تھی اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کہے۔
اور شاہ ویز بھی شاید اس کے گریز کو بھانپ گیا تھا۔
’’ڈیئر کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ تم مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہو‘ مگر پھر خاموش ہوجاتی ہو۔ لگتا ہے‘ کہ تم جان بوجھ کر ہماری شادی والے موضوع پر بات کرنا نہیں چاہتی ہو۔‘‘
کافی دن سے جو بات وہ محسوس کر رہا تھا آج کہہ دی۔
’’نہیں شاہ ویز… وہ…!‘‘
’’پلیز میرا موڈ مزید خراب مت کرو۔ میرا خیال ہے اب مجھے فون بند کردینا چاہیے۔‘‘ وہ بہت سنجیدہ ہو چکا تھا۔
’’شاہ ویز! ایسا نہیں ہے پلیز!‘‘
’’گڈ نائٹ تسمیہ…!‘‘
اس نے لائن ڈسکنکٹ کردی۔ تسمیہ سر تھام کر رہ گئی۔ کس مصیبت میں پھنس گئی تھی وہ شاہ ویز کی محبت دیکھتی تو صرف سچائی نظر آتی اور اگر رباب کا چہرہ دیکھتی تو اوہ میرے خدا!‘‘
’’میں کیا کروں اللہ میاں جی! مجھے راستہ دکھائیں۔ میرا دل کہتا ہے کہ شاہ ویز اور اس کی محبت سچی ہے لیکن رباب کہتی ہے صرف دھوکا ہے۔ بعد میںپچھتائو گی۔ جیسے اس کے ساتھ ہواتھا۔ اس کی شادی بھی یوں ہی ہوئی مگر شادی کی رات ہی اس کے شوہر نے یہ کہہ کر طلاق دے دی کہ جس طرح تم مجھ سے فون پر بات کرتی تھیں جانے کتنے لڑکوں سے تمہاری دوستی ہوگی اور میں ایسی لڑکی کو بیوی نہیں بنا سکتا۔ شادی صرف تمہیں سبق دینے کے لیے کی تھی۔ اس دن کے بعد سے رباب کی زندگی اس کے سامنے تھی۔ ’’کہیں ایسا نہ ہو کہ شاہ ویز بھی ایسے ہی ہوں اور بعد میں بدل جائیں۔ کیونکہ مزاجاً وہ بھی سخت ہی ہے۔ لیکن…! جب شاہ ویز کی محبت نظر آتی تو دنیا کی ہر سچائی اس کے سامنے جھوٹ لگتی تھی۔‘‘ وہ بھی بہت محبت کرتی تھی شاہ ویز سے اور اس کے علاوہ اپنی زندگی میں کسی اور مرد کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔ مگر رباب کے بارے میں جب سے وہ سب جان گئی تھی اس کے اندر وہم اور وسوسے پنپنے لگے تھے اور شاہ ویز جب بھی شادی کا ذکر کرتا وہ چپ سی ہوجاتی اور آج یہ بات اس نے محسوس کر کے کہہ دی تھی۔
دو دن گزر گئے مگر شاہ ویز اتنا خفا تھا کہ فون تک نہیں کیا۔ وہ ایس ایم ایس کرتی رہی مگر جواب ندارد۔ کال کرتی تو نمبر مصروف کردیتا یا موبائل فون بند کردیتا اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔ نہ اس کی ناراضی سہہ سکتی تھی اور نہ اس کی بے رخی۔ آخر اس نے تنگ آکر رباب سے بات کی تھی۔ ’’اگر وہ سچ کہہ رہا تھا تو اس نے اپنے والدین کو کیوں نہیں بھیجا۔‘‘
’’وہ مجھ سے خفا جو ہے۔‘‘
’’تم بہت بھولی ہو‘ وہ خفا نہیں ہے آج کل کسی اور لڑکی کو راہ دکھا رہا ہوگا۔‘‘
’’شاہ ویز ایسے نہیں ہیں رباب؟‘‘ وہ روہانسی ہوگئی۔
’’وقار بھی یوں ہی کہتا تھا اور میں بھی اس پر اتنا یقین کرتی تھی جتنا تم کرتی ہو شاہ ویز پر لیکن دیکھو آج دنیا اجاڑ کر بیٹھی ہوں۔ پہلی رات ہی ٹھکرائی ہوئی دلہن۔‘‘ یہ جملہ سن سن کر میرے اعصاب تھک گئے لیکن لوگ نہیں تھکتے۔ تسمیہ! میرا کام تمہیں سمجھانا ہے۔ آگے تم خود فیصلہ کرلو۔ سوچ سمجھ کر۔‘‘ رباب نے کہا۔
’’رباب! اس نے کبھی مجھ سے جھوٹ نہیں کہا۔ میرا دل کہتا ہے کہ شاہ ویز مجھ سے سچی محبت کرتے ہیں۔‘‘
’’ابھی تمہارے اندر اس کی محبت کا خمار بول رہا ہے۔ لیکن اس طرح جوڑے گئے رشتے کامیاب نہیں ہوتے۔ صرف دوستی ہے نا‘ ختم کردو۔ صرف اپنے ماں باپ کے طے کیے رشتے مضبوط ہوتے ہیں۔ تمہارے والدین جہاں تمہاری شادی کریں گے وہیں کرنا۔ یہ صرف جذباتیت ہے اور کچھ نہیں ہے تسمیہ۔‘‘
’’اف خدایا! میں کیا کروں؟‘‘
اس کا ہر لمحہ بہت بھاری گزر رہا تھا۔ اس وقت اس کا ذہن بری طرح الجھ رہا تھا کہ اس نے شاہ ویز کو فون تک کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ایک ہفتہ گزر گیا تھا اس کشمکش میں مگر وہ کوئی فیصلہ نہیں کرپائی تھی۔


…٭٭٭…


شاہ ویز آج پھر رات کو دیر سے آیا تھا۔ امی اب تک اس کے انتظار میں جاگ رہی تھیں۔
’’آپ سوجاتیں امی۔‘‘
’’شاہ ویز! تم جانتے ہو نا بیٹے کہ شہر کے حالات کتنے خراب ہیں؟ بیٹا دیر سے مت آیا کرو۔ میرے دل میں لاکھوں وسوسے جنم لیتے ہیں۔‘‘
’’سوری امی بس وہ دوست!‘‘
’’پہلے بھی تو تمہارے دوست تھے جب تو تم لیٹ نہیں آتے تھے؟‘‘ ان کی بات پر وہ خاموش ہوگیا۔
’’آئندہ دیر نہیں ہوگی۔ اب آپ جاکے سوجائیں۔‘‘ اس نے امی کو تسلی دی اور اپنے کمرے میں آگیا۔ بیڈ پر لیٹا تو نیند آنکھوں سے بہت دور تھی۔ ایک ہفتے سے اس کا تسمیہ کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں تھا۔ وہ خفا تھا تو اس نے منانے کی کوشش بھی نہیں کی۔ پہلے دو دن تو کال کرتی رہی مگر اب تو۔ بالکل خاموشی تھی۔ اس نے ارادتاً تسمیہ سے دوستی نہیں کی تھی۔ لیکن دوستی کی تو اس کی باتیں اور عادتیں اسے اچھی لگیں۔ وہ بہت صاف گو اور صاف دل رکھتی تھی اور جب تک اس سے صرف دوستی رہی‘ وہ ہر بات اس سے شیئر کرتی تھی لیکن جب اس کے دل میں تسمیہ کے لیے نئے احساسات پیدا ہوئے تھے اور وہ اس کی زندگی کی اہم ترین ضرورت بن گئی تھی۔ جانے کیوں وہ اس سے کھنچی کھنچی سی رہنے لگی۔ پہلے ایسا نہیں تھا لیکن جانے کیوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ شاہ ویز پر اعتبار نہیں کرتی مگر کیوں۔ یہ ہی وجہ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی۔ صرف اس کی یاد سے بچنے کے لیے وہ آج کل گھر دیر سے آتا تھا۔ ورنہ وہ نو‘ دس بجے سے زیادہ کبھی باہر نہیں رہتا تھا۔ جلدی آتا تو اس سے بات کرنے کو دل چاہتا تھا جس نے ایک بار فون کر کے منانے کی کوشش بھی نہیں کی تھی مگر شاید وہ دل کے ہاتھوں مجبور تھا۔ تبھی تو بے اختیار ہی وہ اس کا نمبر ملا بیٹھا۔ تین چار بیلز کے بعد ادھر سے کال ریسیو تو کرلی تھی مگر وہ خود مخاطب نہ ہوئی۔
’’اتنا بے اعتبار ہوگیا ہوں میں کہ اب تم مجھ سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتیں؟ کس بات کی سزا دے رہی ہو مجھے۔ کیا جرم کردیا ہے میں نے۔ کبھی کبھی تو مجھے شک ہوتا ہے کہ تم میری تسمیہ ہو ہی نہیں۔ وہ ایسی نہیں تھی۔ وہ تو اپنے دل کی ہر بات مجھ سے شیئر کرلیتی تھی لیکن اب کیا ہوگیا؟ مجھے پتا ہے تمہارے دل میں کوئی بات ہے جو تمہیں مجھ سے دور کر رہی ہے لیکن تم کہتی نہیں ہو۔ پلیز تسمیہ میں نہیں رہ سکتا تم بن یقین کرو میرا۔‘‘
اس کے لہجے کی توڑ پھور اس بات کی گواہ تھی کہ وہ کتنا زیادہ پریشان ہے اس کے رویے سے‘ اس کے لفظوں سے‘ جذبوں کی شدت نمایاں تھی۔ کیا اب بھی کوئی وجہ تھی اس پر یقین نہ کرنے کی…! اس کی برداشت ختم ہوئی تو فون پر ہی پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ شاہ ویز جانتا تھا کہ اس کے بنا وہ بھی جی نہیں سکتی۔ بس کوئی وجہ ہے درمیان میں جو ان دونوں کو دور کر رہی ہے۔ وہ منتظر ہی رہا۔ تسمیہ نے کال کاٹ دی؟
’’تو گویا تسمیہ ثاقب! تمہارے دل میں میرے لیے کوئی نہ کوئی بد گمانی تو ہے۔‘‘ اب اسے پختہ یقین ہوچکا تھا۔ ’’لیکن پتا کیسے چلے کہ کیا بات ہے…؟‘‘ سوچ سوچ کر اس کا دماغ شل ہونے لگا اور آخر اسے ایک ہی حل ملا تھا اور اس نے طے کرلیا تھا کہ صبح ہوتے وہ اس پر عمل کرے گا۔



…٭٭٭…


’’بڑے بھیا! آپ نے اتنا سب مجھ سے چھپایا۔‘‘
’’زوبی پلیز! اس وقت میں بہت پریشان ہوں میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کروں۔ تم کیسی دوست ہو اس کی۔ کیا وہ تم سے کچھ بھی شیئر نہیں کرتی۔‘‘
’’وہ بہت عجیب سی ہے بس خود میں مگن سی بہت کم دوسروں پر بھروسا کرتی ہے۔ اگر مجھے وہ آپ کے بارے میں بتاتی تو کیا مجھے علم نہ ہوتا ان تمام باتوں کا؟‘‘
’’مجھے پتا ہے وہ بہت کم اعتبار کرتی ہے کسی پر لیکن وہ مجھ پر بھروسا کرتی تھی مگر اب… اب جانے کیا ہوگیا ہے اسے؟‘‘
’’میں خود بات کروں اس سے؟‘‘
’’نہیں‘ تم وہی کرو جو میں نے کہا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ اس نے سر ہلایا۔
اور پھر زوبی نے امی کو منالیا کہ وہ بھیا کے لیے اپنی دوست کو بہت پسند کرتی ہے اور چونکہ امی بھی تسمیہ سے مل چکی تھیں سو وہ کچھ سوچ بچار کے بعد راضی ہوگئیں۔ یوں صرف ایک ہفتے بعد ہی امی اپنی بڑی بہن کو لیے ان کے گھر ۔ تسمیہ کا رشتہ لے کر پہنچ گئیں۔ تسمیہ کو بہت شاک سا لگا تھا کہ ایک طرف تو وہ شاہ ویز سے کھنچ رہی ہے‘ اس سے رابطہ تک کرنا چھوڑ دیا ہے اور اس نے پھر بھی رشتہ بھیج دیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔ تبھی زوبی اس کے پاس آئی وہ بہ مشکل مسکرا سکی۔
’’کیا ہوا تم خوش نہیں ہو۔ تسمیہ!‘‘ اس کا مرجھایا چہرہ دیکھ کر وہ بولی۔ ’’بھیا تو اتنے خوش ہیں اور ہاں گھنی! تم نے مجھے بتایا تک نہیں مجھ سے چھپایا کہ تم اور بھیا …!
’’زوبی پلیز۔‘‘ وہ بے زاری سے بولی۔
’’کیا بات ہے تسمیہ! بھیا جتنے خوش تھے اگر تم واقعی ان کے جذبوں کی ہم سفر ہو تو تمہیں تو ان سے کہیں زیادہ خوش ہونا چاہیے لیکن تمہارے چہرے پر خوشی کا نام و نشان تک نہیں ہے۔‘‘ زوبی کی بات پر یکدم اس کے چہرے کی ہَوائیاں اڑ گئی۔
’’زوبی بس یار! الجھن سی ہو رہی ہے اگر امی ابو نہیں مانے پھر…؟‘‘
’’جناب! یہ تم مجھ پر چھوڑ دو۔ مجھے یقین ہے وہ ضرور مان جائیں گے۔ بس تم یہ چہرے کے تنے نقوش ٹھیک کرلو۔‘‘
’’زوبی! میں بہت پریشان ہوں۔‘‘
’’میں کافی دیر سے دیکھ رہی ہوں کہ شاید تم خود ہی بتادو کہ تم اتنی الجھی الجھی کیوں ہو؟ ہم اچھے دوست ہیں۔ شاید میں تمہارے کام آسکوں اور تمہاری پریشانی کا کوئی حل نکال سکوں۔‘‘ زوبی نے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر تسلی دی۔ تسمیہ کی ذہنی پریشانی حد سے سوا ہوگئی تھی اور لگا اگر وہ کسی کے ساتھ شیئر کرے گی تو شاید دماغ کو کچھ سکون ملے۔ اس نے اپنی تمام پریشانی تفصیل کے ساتھ زوبی کو بتائی۔
’’تمہیں بھیا پر اعتبار نہیں ہے تسمیہ! تمہیں لگتا ہے کہ وہ تمہارے ساتھ ایسا کریں گے۔‘‘
’’ان پر تو خود سے زیادہ اعتبار ہے لیکن رباب کہتی ہے کہ پہلے تو سب لڑکے یوں ہی کرتے ہیں۔ زوبی! میری سمجھ میںنہیں آتا کیا کروں؟ مجھے ڈر لگتا ہے اگر میرے ساتھ بھی…!‘‘
’’کیا رباب کی شادی جس لڑکے سے ہوئی‘ وہ اس سے مل چکا تھا پہلے یا صرف فون پر رابطہ تھا۔ تسمیہ یہ سچ ہے کہ تمہارا اور بھیا کا رشتہ فون سے بنا ہے مگر ہمارے اس سے پہلے بھی تعلقات تھے۔ تمہارا میرے گھر اور میرا تمہارے گھر آنا جانا تھا۔ میرے فیملی والے تمہیں اور تمہارے امی ابو مجھے جانتے ہیں اگر تمہارا ذہن اس وقت صرف بھیا پر اٹکا ہوا ہے تو پلیز یہ سوچ نکال دو اپنے ذہن سے۔ میں اپنے بھیا کی ضمانت دیتی ہوں‘ وہ ایسے نہیں ہیں۔ حالانکہ جتنا پیار وہ تم سے کرتے ہیں۔ مجھ سے زیادہ تو تمہیں ان پر اعتبار ہونا چاہیے تھا لیکن بڑا افسوس ہوا کہ اتنی محبت دونوں کے بیچ ہونے کے باوجود تمہیں ان پر یقین نہیں ہے۔‘‘
’’میرا دل ان پر بہت اعتماد کرتا ہے زوبی! وہ الگ ہیں سب سے۔‘‘ شاہ ویز کے لیے دل میں چاہت تو کم نہ ہوئی تھی مگر اسے رباب کی باتیں الجھائے دیتی تھیں۔
’’تمہیں پتا ہے تسمیہ! بھیا کی زندگی میں آنے والی تم پہلی لڑکی ہو۔ انہوں نے آج تک کبھی کسی لڑکی کو نظر بھر کے دیکھا بھی نہیں اور تم… تمہیں تو بنا دیکھے ہی وہ کتنا چاہتے رہے ہیں۔ تم سے اتنی محبت کرتے ہیں لیکن انہوں نے کبھی یہ خواہش نہیںکی کہ وہ تمہیں دیکھنا یا تم سے ملنا چاہتے ہیں بلکہ انہوں نے یہ ہی کہا کہ وہ اپنی امی کو تمہارے گھر بھیجنا چاہتے ہیں اور یہ باتیں اس وقت کی ہیں جب انہیں یہ بھی علم نہ تھا کہ تم میری بہترین دوست ہو۔‘‘
’’ہاں‘ یہ ٹھیک کہہ رہی ہو تم۔ شاہ ویز نے مجھے مجبور نہیں کیا ملنے کے لیے۔‘‘ وہ ہر بات جانتے ہوئے بھی جانے کیوں اس قدر منفی انداز میں سوچ رہی تھی۔ زوبی نے اس کا ذہن صاف کرنے کی بہت کوشش کی تھی اور جب اس نے آکر شاہ ویز کو یہ سب باتیں بتائیں تو وہ حیران رہ گیا۔
’’وہ احمق صرف ایک لڑکی کے ساتھ ہونے والے حادثے کی وجہ سے اپنی زندگی خراب کر رہی ہے؟ اس قدر نا سمجھ ہو گی وہ۔ میں یقین نہیںکرسکتا اف خدایا اسے مجھ سے زیادہ اس لڑکی پر اعتبار ہے؟‘‘
اسے تسمیہ نے بہت دکھ پہنچایا تھا اسے اس قدر غصہ تھا اس احمق لڑکی پر کہ اس نے خود سے وعدہ کرلیا کہ اب اسے فون نہیں کرے گا۔ اب جو بات ہوگی وہ روبرو ہوگی اور اسے اپنانے کے بعد ہوگی۔ اس لیے اس نے خاموشی اختیار کرلی۔ امی ان کے گھر رشتہ لے کر جاچکی تھیں اور انہوں نے سوچنے کا وقت مانگا تھا۔ پھر اچانک ہی تسمینہ کے گھر والے اس دن ان کے گھر آئے تھے۔
چونکہ سنڈے تھا اور وہ بھی گھر پر تھا۔ تسمیہ کی امی‘ ابو اور ایک عدد بھائی اس سے مل کر بہت خوش ہوئے انہیں شاہ ویز بہت اچھا ‘ سمجھدار اور سلجھا ہوا لڑکا لگا تھا۔ وہ اپنے اطمینان کے لیے آئے تھے اور شاہ ویز کو دیکھنے اور اس سے ملنے کے بعد انہیں لگا کہ تسمیہ کے لیے یہ اچھا اور بہترین بر ہے۔ یوں تقریباً ان کی طرف سے ’’ہاں‘‘ میں جواب آگیا تھا۔ پھر بھی امی نے ان سے فون پر بات کر کے فائنل جواب پوچھا تھا۔ جو مثبت ملا۔
صرف ایک ماہ کے اندر ان کی باقاعدہ منگنی ہوگئی۔ وہ خوش تھا لیکن تسمیہ سے سخت خفا تھا۔ منگنی کے دو ماہ بعد ہی امی تاریخ طے کرنے کے لیے خود گئی تھیں۔
’’ہمارا ارادہ تھا کہ عید کے بعد کی تاریخ مناسب ہوگی۔‘‘
’’جی بھیا! آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ مگر آپ جانتے ہی ہیں کہ میری حج کی درخواست منظور ہوگئی ہے۔ میری خواہش تھی کہ جانے سے پہلے تسمیہ آکر گھر سنبھال لے کیونکہ عید کے بعد شادی ہوگی تو ظاہر ہے کہ یکدم ہی تو تسمیہ نئے ماحول اور نئے گھر میں ایڈجسٹ نہیں کرسکتی۔ اس لیے میں چاہتی ہوں کہ عید سے پہلے یہ کام ہوجائے۔ بچی کو کچھ وقت مل جائے گا۔ میں اگر گھر پر نہیں ہوں گی تو ساری ذمہ داری اس پر ہوگی اور تسمیہ گھر کی بڑی بہو ہے۔‘‘
’’ہم سمجھ گئے آپا! آپ کی خواہش ہے تو جیسے آپ کی مرضی آپ جب چاہیں اپنی امانت لے جاسکتی ہیں۔‘‘
تاریخ طے ہوتے ہی دونوں گھروں میں شادی کی تیاریاں زور و شور سے شروع ہوگئیں۔ ان دنوں تسمیہ کی حالت بہت خراب تھی ایک تو شاہ ویز سے کوئی رابطہ نہ تھا دوسرا رباب نے اس کے خیالات کو بری طرح منتشر کر رکھا تھا۔ وہ مسلسل اسے اکسا رہی تھی کہ اپنے امی ابو سے بات کرلے‘ ابھی وقت ہے کہیں ایسا نہ ہو بعد میں پچھتانا پڑے اور تسمیہ اتنی ہمت نہیں کر پا رہی تھی۔ اس کا اعتبار ڈگمگا رہا تھا مگر دل کے کسی کونے میں شاہ ویز کی محبت کی شمع بھی روشن تھی۔ یہ ہی وہ بات تھی جو اسے خاموش رہنے پر مجبور کررہی تھی مگر اب جب کہ وہ خود شاہ ویز سے بات کرنا چاہ رہی تھی تو وہ اس کا نمبر دیکھ کر موبائل ہی آف کردیتا تھا اور پچھلے دو دن سے تو اس کا نمبر ہی بند جا رہا تھا۔ اس نے زوبی سے بات کی۔
’’اچھا شاید بھیا کے سیل میں کوئی مسئلہ ہو‘ میں ان سے کہہ دوں گی وہ تمہیں خود کال کرلیں گے۔‘‘
وہ پوری رات صرف اس کے فون کے انتظار میں جاگتی رہی لیکن شاہ ویز نے فون نہیں کیا۔ گھر میں شادی کے ہنگامے زور پکڑ رہے تھے اور اس کے دل میں عجیب سی بے چینی شدت اختیار کر رہی تھی۔ اسی بے چینی کو دل میں لیے وہ تسمیہ ثاقب سے تسمیہ شاہ ویز بن کر ان کے گھر آگئی اس وقت اس کے دل کی کیا حالت تھی۔ رباب کے بتائے گئے خدشات اور شاہ ویز کی اتنے دنوں کی چپ جانے اس کی قسمت کا کیا فیصلہ ہونے چلا تھا۔
’’یا اللہ بس جو بھی کرنا‘ اچھا کرنا۔‘‘ اس کے دل سے یہ ہی دعا نکل رہی تھی۔ شدید تھکن کے باوجود اس کے ذہن پر آنے والے ہر پل میں کیا ہوگا کی فکر سوار تھی اور اب وہ پل آگیا تھا جب شاہ ویز عین اس کے سامنے آ بیٹھا تھا۔ اس کا سجا سنورا روپ بہت غور سے دیکھا تھا اس نے۔

’’ہاں تو مسز تسمیہ شاہ ویز! کیا بات تھی جو مسلسل آپ مجھے کال کر رہی تھیں؟ میں نے سوچا تھا کہ اب فون پر کیا باقی رہ گیا ہے کہنے کو۔ جو بات ہوگی روبرو ہی ہوجائے گی۔‘‘ اس کے لہجے میں عجیب سی سرد مہری اور کاٹ تھی۔ جو اس کے اندر کہیں چبھ گئی اور اسے رباب کے خدشات پر یقین سا آنے لگا۔ ’’بولو! اب کیوں چپ ہو؟ شاید تمہیں انتظار ہے کہ میں تمہاری دوست کی بتائی ہوئی تمام صورت حال کے مطابق وہ فیصلہ کب لوں گا؟‘‘ اس نے چبھتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا۔ ’’جب ہم نے فون پر دوستی کی تو ایک اعتبار ہی تھا نا جو ہمارے درمیان تھا۔ جس کی بنیاد پر ہم نے دوستی سے محبت تک کا سفر طے کیا تھا اور پھر تمہارے اس وہم نے ہمارے درمیان اتنے فاصلے پیدا کردیے کہ ہم انہیں ختم کرنا چاہیں تو بھی دراڑ رہ جائے گی۔ کیونکہ تسمیہ! تم نے میرے اعتبار کو چکنا چور کیا ہے۔ تم نے محض ایک لڑکی کے ساتھ ہونے والے حادثہ کی بنیاد پر اپنی زندگی میں آنے والی ہر خوشی کو خود اپنے ہاتھوں ختم کردیا؟ جب میں نے زوبی سے یہ تمام باتیں سنیں تھیں۔ تو ایک لمحے کو میرا دل چاہا ابھی سب کچھ ختم کردوں جو ہم دونوں کے بیچ تھا لیکن اگر میں ایسا کرتا تو یہ میری اپنی محبت کی توہین تھی کہ تم نے تو میرے بارے میں اتنا غلط سوچ ہی لیا تھا کسی غیر کے کہنے پر۔ میں بھی غصہ وجذبات میں وہی قدم اٹھالوں جو تمہاری غلط سوچ کو پختہ یقین بنا ڈالے تاکہ پھر تم بھی ہر لڑکی کو یوں ہی بھٹکائو۔ اس کی خوشیاں ختم کر ڈالو جیسے تمہاری دوست نے تمہاری کرڈالیں۔ میری محبت اتنی کمزور نہیں تھی تسمیہ جو یوں ختم ہوجاتی لیکن اب تم اپنی دوست کے سامنے سر خرو ہوسکتی ہو کہ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا جو کہ اس کے ساتھ ہوا۔ مگر اب ہم دونوں میں جو فاصلے تمہارے وہم کی بنیاد پر آگئے ہیں‘ انہیں دور کرنے کی کوشش مت کرنا۔ تم جا کے کپڑے تبدیل کرلو اور پرسکون ہوجائو شب بخیر۔‘‘ شاہ ویز نے جب حقیقت کا آئینہ اس کے سامنے رکھا تو خود وہ اپنی صورت نہیں دیکھ پائی۔ وہ کتنی غلط تھی اور شاہ ویز نے اس کی ہر بات خاموشی سے سہی۔ آج جو بھی اس نے کہا تھا بالکل ٹھیک تھا۔ شرمندگی کا احساس تھا جو اسے سر اٹھانے نہیں دے رہا تھا۔
’’شاہ ویز…!‘‘
’’بس!‘‘ اس نے کچھ کہنے کی ہمت کر ہی ڈالی تھی مگر اس نے ہاتھ اٹھا کر روک دیا۔ ’’میں نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ تمہارے سارے وہم اور خدشات کو چکنا چور کروں گا تمہیں اپنائوں گا اور نبھائوں گا بھی لیکن ہمارے بیچ وہ محبت نہیں رہی جسے تم خود اپنے ہاتھوں ختم کر آئی ہو۔‘‘
’’مجھے آپ کی محبت پر کوئی شک نہیں رہا مگر…!‘‘
’’خاموش رہو! تم تو محبت کا لفظ بھی زبان سے ادا مت کرو اور ہاں‘ ہم دونوں کے درمیان جو بات اب ہوئی ہے اگر یہ بھی جا کے اپنی دوست کو بتائو تاکہ وہ مزید تمہیں کوئی اور نایاب مشورہ دے سکے تو تم خود نقصان اٹھائو گی۔‘‘ وہ اپنی بات ختم کرکے چینج کرنے چلا گیا اور کچھ دیر بعد واپس آکر خاموشی سے لیٹ گیا۔
وہ ساری رات روتی رہی اور خود کو کوستی رہی۔ رباب کی باتوں میں آکر اس نے خود کو اتنا کمزور کردیا تھا کہ آج وہ اپنی محبت پا کر بہت دور تھی ان خوشیوں سے جن کے خواب ان دونوں نے مل کر دیکھے تھے۔


…٭٭٭…


ایک ماہ دعوتوں وغیرہ میں گزر گیا۔ اس نے رباب سے کیا‘ کسی سے بھی کوئی بات نہیں کی تھی وہ نہیں چاہتی تھی کہ ان دونوں میں مزید کوئی فاصلہ پیدا ہو۔ وہ شاہ ویز کا اعتبار دوبارہ حاصل کرنا چاہتی تھی اس کی محبت ہی تو زندگی تھی اور اب جب وہ کٹھور اور انجان بنا ہوا تھا۔ اس پر کڑی بیتتی تھی۔ سب کے سامنے جہاں وہ اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجائے رکھتی تھی شاہ ویز کا لہجہ اور رویہ بھی ایسا ہوتا تھا کہ کوئی کچھ کہہ نہ سکے خاص کر امی کے سامنے وہ نہیں چاہتا تھا کہ امی پریشان ہوں۔ تسمیہ میکے دو تین دفعہ گئی تھی آخری دفعہ گئی تو رباب ملنے آئی تھی۔
’’تسمیہ! تم خوش ہو؟‘‘
’’کیا مطلب! تمہیں نہیں لگتامیں خوش ہوں اور پلیز رباب مجھے اب کوئی مشورہ مت دینا شاہ ویز بہت اچھے ہیں۔ انہیں اور ان کی محبت کو پا کر میں مکمل ہوئی ہوں۔ تمہارے بے وجہ کے خدشات نے مجھے ذہنی اذیت دے رکھی تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب میں پرسکون ہوں۔‘‘
’’بہت خوش قسمت ہو تم لیکن پھر آئندہ کے لیے دھیان رکھنا کہیں وہ کسی اور…!‘‘
’’خدا کے لیے رباب! تم میری دوست ہو نا پھر کیوں صرف مجھے پریشان کرنے کی بات کرتی ہو ہمیشہ! اب مجھے تمہاری کسی بات کو نہیں سننا۔ تمہارے ساتھ جو ہوا‘ وہ محض ایک حادثہ تھا۔ ہر شخص ایسا نہیں ہوتا۔ پلیز آئندہ کسی اور لڑکی کے ذہن میں اس طرح کی باتیں مت ڈال دینا کیونکہ ہر مرد شاہ ویز نہیں ہوتا اور بہتر تو یہ ہوگا کہ تم یہ بھول کر کہ تمہارا ماضی کیسا رہا۔ اپنے ذہن کو بدلو۔ مثبت سوچ اپنائو اتنی لمبی زندگی تنہا نہیں گزرتی۔ ہمارے معاشرے میں اکیلی عورت کے لیے زندگی گزارنا بہت کٹھن ہے۔ میری دعا ہے کہ تمہیں کوئی اچھا انسان مل جائے تاکہ تمہیں اتنی خوشیاں ملیں کہ تم اپنا ماضی بھول جائو۔‘‘
’’مجھے اپنی خوشیوں پر اعتبار نہیں رہا تسمیہ! مرد صرف دھوکے کا نام ہے۔ مجھے تو تمہاری فکر ہو رہی ہے جانے اب شاہ ویز کیا چال چلتا ہے۔‘‘
’’خدا کے لیے رباب آج کے بعد میری زندگی میں مداخلت مت کرنا۔ تم کیوں میرا گھر برباد کرنا چاہتی ہو؟‘‘ اسے غصہ آگیا۔
’’میں تمہاری دوست ہوں تسمیہ! تمہارا بھلا چاہتی ہوں۔ تم معصوم ہو اور مرد بہت شاطر ہوتے ہیں۔ تم نہیں جانتیں۔‘‘
’’پلیز رباب! مجھے دنیا کے کسی مرد سے کوئی واسطہ نہیں۔ شاہ ویز میرے شریک حیات ہیں مجھے ان پر اور ان کی محبت پر اپنی جان سے بڑھ کر اعتبار ہے۔ ایک بار تو تمہاری ان فضول کی باتوں میں آکر میں ذہنی اذیت کا شکار رہی ہوں‘ مگر اب مجھے اچھی طرح پتا ہے کہ دنیا میں شاہ ویز کی محبت سے بڑھ کر کوئی سچائی نہیں ہے۔ اگر تم چاہتی ہو کہ ہمہاری دوستی قائم رہے تو پلیز آج کے بعد تم میرے اور شاہ ویز کے بارے میں کوئی بات نہ کرنا۔ ورنہ میں سمجھوں گی کہ تم میری دوست نہیں دشمن ہو۔‘‘ صاف گو تو سدا کی تھی۔ رباب ہکا بکا رہ گئی۔
’’تسمیہ تم دھوکا کھا…!‘‘
’’خاموش رہو رباب پلیز! اور اب جائو۔’’ اس کا غصہ عروج پر پہنچ چکا تھا۔ وہ واقعی اس کی زندگی برباد کردیتی۔ وہ تو شاہ ویز خود بہت اچھے تھے ورنہ جانے کیا بنتا اس کا۔رباب منہ بناتی ہوئی باہر نکل گئی اور شاہ ویز تب اچانک آگیا۔ اس کے لیے تسمیہ کا یہ انداز بہت حیران کن تھا مگر اب وہ جانتا تھا کہ تسمیہ اپنے کیے پر پچھتا رہی ہے اور وہ جان چکی ہے کہ اس کے لیے کیا اچھا ہے اور کیا برا…!

…٭٭٭…


اس کی سسرال بہت اچھی تھی۔ ساس‘ زوبی اور ایک دیور۔ اسے ان سب کے ساتھ گھلنے ملنے میں دیر نہ لگی تھی۔ بس جس سے سب سے زیادہ رشتہ تھا اس سے اب تک معافی بھی نہ مانگ سکی تھی۔ وہ موقع ہی نہیں دیتا تھا۔ سب کے سامنے اس کا رویہ جتنا اچھا ہوتا تھا۔ تنہائی میں وہ تسمیہ کی بات تک سننے کو تیار نہ تھا۔ اس نے بہت کوشش کی بات کرنے کی مگر اس کا ایک ہی جواب ہوتا تھا۔
’’مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی ہے نہ تمہاری سننی ہے۔ براہ مہربانی مجھے مخاطب مت کیا کرو۔‘‘ وہ اپنا سا منہ لے کر رہ جاتی۔
رمضان کا بابرکت مہینہ شروع ہوا تو اس کی مصروفیت بھی بڑھ گئی۔ پہلے تو دل چاہا تو کام کرلیا ورنہ نہیں مگر یہاں وہ کسی کو بھی شکایت کا موقع نہیں دینا چاہتی تھی۔ اس لیے ہر کام خود کرتی مگر امی سے پوچھ کر۔ افطاری کی تیاری‘ سحری بنانا یہ کام وہ خود انجام دے رہی تھی۔ وہ شاہ ویز کی پسند نا پسند سے اچھی طرح واقف تھی سو افطاری پر جب اسے روز اپنی پسندیدہ کوئی ڈش ملتی تو وہ ایک نظر اس پر ضرور ڈالتا تھا۔ امی اس سے بہت خوش تھیں اس کا اظہار وہ روز شاہ ویز کے سامنے ضرور کرتی تھیں۔
’’آج کے دور میں اتنی اچھی بہو ملی ہے مجھے‘ اللہ پاک اسے سدا خوش رکھے۔ میرے دل سے اس کے لیے دعا نکلتی ہے شاہ ویز۔ مجھے اب اپنے گھر کی فکر نہیں ہے۔ تسمیہ نے جس طرح ساری ذمہ داری سنبھال لی ہے میرے ذہن سے بہت بڑا بوجھ اتر گیا ہے۔ ورنہ ایک فکر سی تھی کہ آج کل کی لڑکیاں بے پروا سی تو ہوتی ہیں۔ پتا نہیں میری بہو کیسی ہوگی مگر اب ما شاء اللہ میری بہو نے میری ساری فکریں دور کردی ہیں۔‘‘
وہ سب کے لیے چائے بنانے گئی تھی جب امی اسے بتا رہی تھیں۔ اس سے لاکھ خفا سہی مگر امی سے اتنی تعریف سن کر وہ دلی طور پر بہت مسرور ہوا تھا۔ اپنی محبت اپنے انتخاب پر ناز تھا اسے۔‘‘
’’شاہ ویز! وہ سارا دن کام کرتی ہے۔ تم شام کو کچھ دیر کے لیے ہی سہی اسے باہر لے جایا کرو۔ اسے تمہاری محبت اور توجہ کی بھی بہت ضرورت ہے۔ عورت مردکی تمام مشکلیں برداشت کرلیتی ہے اگر اس کے شریک سفر کا ساتھ اس کی خوشی اور توجہ بھی پوری ملے۔ تم تو آتے ہی بس سونے کی کرتے ہو۔‘‘
’’امی! تھک جاتا ہوں۔‘‘ اس نے بہانہ گھڑا اور تب ہی تسمیہ چائے لے آئی۔
’’تھک تو تسمیہ بھی جاتی ہوگی مگر اس نے مجھے یہ نہیں کہا کہ امی آج میں یہ کام نہیں کرتی۔ کل کرلوں گی۔ ٹھیک ہے تم بھی فریش ہوجائو گے اور یہ بھی تھوڑا گھوم پھر لے گی۔ اسے کہیں باہر لے جائو۔‘‘
وہ امی کی بات سن کر افسردہ ہوگئی تھی کہ شاہ ویز تو ہرگز ایسا نہیں چاہیں گے۔‘‘
’’امی! میں نے ابھی کام بھی ختم نہیں کیے پھر نماز ادا کرنی ہے عشاء کی اور…!‘‘


’’کام بھی ہوتے رہیں گے اور نماز بھی تم آکر ادا کرسکتی ہو۔ اب جا کر جلدی سے یہ لباس تبدیل کرو۔‘‘
حیرت کی بات تھی کہ شاہ ویز نے یہ کہا وہ امی طرف دیکھنے لگی جو مسکرا رہی تھیں۔
’’صحیح کہہ رہا ہے شاہ ویز جائو شاباش!‘‘ ناچار وہ اٹھ گئی اور پندرہ منٹ بعد وہ اس کے سامنے کھڑی تھی۔
’’جائو بچو! اور شاہ ویز تسمیہ کا خیال رکھا کرو۔ اگر مجھے ذرا سا بھی شک ہوا نا کہ تم بے پروا ہو رہے ہو اس کی طرف سے تو بہت برا ہوگا۔‘‘
’’جناب! آپ اپنی بہو سے پوچھ سکتی ہیں۔‘‘ اس نے مسکرا کر کہا اور اسے چلنے کا اشارہ کرکے آگے بڑھ گیا۔ امی کے کہنے پر وہ اسے ساتھ لیے آ تو گیا تھا مگر کیا فائدہ؟ اس سے اچھی تو وہ گھر پر تھی کم از کم مصروفیت میں یوں بور تو نہیں ہوتی تھی۔ وہ خود بھی دوسری طرف منہ کر کے بیٹھا تھا اور ظاہر ہے پھر وہ کیسے بول سکتی تھی۔ اِدھر اُدھر کتنے جوڑے بیٹھے تھے۔ ہنستے مسکراتے ایک دوسرے سے جانے کون سی باتیں کر رہے تھے جو ختم نہیں ہوتی تھیں ایک وہ تھے۔ تسمیہ دس منٹ میں ہی بور ہوگئی۔
’’چلیں گھر…؟‘‘
اس کی آواز پر شاہ ویز نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ نمکین پانی سے بھری آنکھیں لیے وہ اس سے مخاطب تھی۔ اس کے دل میں نرماہٹ سی پیدا ہوئی تھی۔
’’کیوں! میرے ساتھ آنا اچھا نہیں لگا؟ بور ہو رہی ہو نا۔‘‘
’’نہیں تو… وہ بس… نیند آرہی تھی۔‘‘ شکر کہ بہانہ اچھا مل گیا تھا۔ اس کی سارے دن کی تھکن اور پھر سحری میں اٹھنے کا احساس شاید واقعی اسے نیند آرہی ہوگی۔ تبھی اس نے صرف سر ہلایا تھا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ گھر پہنچتے ہی وہ نماز کے لیے چل دی مگر جب کاموں سے فارغ ہو کر لیٹی تو نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ کتنے دن ہوگئے تھے اس کی شادی کو مگر وہ کمزور نہیں پڑی تھی مگر آج پتا نہیں کیوں بے آواز آنسو اس کا تکیہ بھگو رہے تھے۔ لاکھ چاہنے کے باوجود بھی وہ خود کو رونے سے نہیں روک پا رہی تھی۔ وہ اس بات سے انکاری نہیں تھی کہ قصور صرف اس کا تھا۔ شاہ ویز نے جو بھی کیا وہ ٹھیک کیا۔ اس نے شاہ ویز کی محبت پر شک کیا تھا۔ دوسروں کی باتوں میں آکر اس نے شاہ ویز کے دل کو ٹھیس پہنچائی تھی۔ وہ اپنی ہر خطا قبول کرتی تھی۔ مگر صرف ایک بار وہ اس کی بات تو سن لے! وہ معافی مانگنا چاہتی تھی۔ اپنے تمام تر کیے کی! اسے شاہ ویز کی ہر سزا منظور تھی لیکن خاموشی کی یہ سزا وہ سہہ نہیں پا رہی تھی۔ وہ اس پر چیختا چلاتا لیکن یہ بے گانگی‘ روکھا پن اور لا تعلقی اس کے دل کو دکھ دے رہی تھی۔ کاش ایک بار وہ اس کی بات سن لے‘ اس کی معافی قبول کرلے۔ لیکن وہ تو بات تک کرنے کو تیار نہ تھا۔
سحری میں وہ اٹھی تو اس کی آنکھیں سوج رہی تھیں اور رونے سے سرخ بھی ہو رہی تھیں۔ شاید کسی نے یہ بات نوٹ نہ کی ہو مگر جب وہ آیا تو اس کے چہرے پر نظر پڑتے ہی بے چین ہوگیا۔ یعنی یہ اس کا وہم نہیں تھا وہ رات بھر واقعی نہیں سوئی تھی۔ رات اسے محسوس تو ہوا تھا کہ تسمیہ رو رہی ہے مگر اسے بے سدھ لیٹا پاکر اس نے اپنا وہم سمجھ لیا تھا۔ پر اب اس کی سرخ آنکھیں گواہ تھیں۔ بے کلی سی اس کے اندر پھیل گئی۔ اب تو وہ خود بھی تھک گیا تھا اس دوری سے۔ ٹھیک ہے اس نے غلطی کی تھی مگر ان دوماہ میں اپنے رویے اور ثابت قدمی سے اس نے یہ ثابت کردیا تھا کہ وہ اپنے کیے پر نادم ہے اور اب اسے سمجھ آگئی ہے کتنی بار اس نے شاہ ویز کو مخاطب کیا اپنی خطا پر معافی مانگنے کے لیے۔ لیکن وہ کٹھور بنا رہا۔
’’تسمیہ بیٹا! تمہاری طبیعت اچھی نہیں لگ رہی۔ تم نماز پڑھ کر آرام کرو۔ برتن وغیرہ زوبی دھو لے گی۔‘‘
’’ہاں تسمیہ تمہارے سر میں درد ہے۔ اذان سے پہلے ہی کوئی ٹیبلٹ لے لو کہیں سارا دن پھر طبیعت خراب رہے۔‘‘ زوبی نے اسے ٹیبلٹ دی جو اس نے خاموشی سے لے لی کیونکہ رونے سے اس کے سر میں واقعی شدید درد تھا۔ ٹیبلٹ لے کر وہ اپنے کمرے میں آگئی سر میں درد بہت زیادہ تھا۔ اذان ہوئی تو نماز پڑھتے ہی وہ لیٹ گئی اور کچھ دیر بعد گہری نیند میں تھی۔ شاہ ویز نماز کے بعد جب کمرے میں آیا تو اسے پر سکون نیند میں دیکھ کر خود بھی پرسکون سا ہوگیا۔
رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوا تو جہاں عبادات میں اضافہ ہوا وہیں عید کی تیاریاں بھی زور پکڑ گئیں۔ امی نے اسے کئی بار کہا کہ اپنے لیے شاپنگ کر آئے مگر وہ بہانہ بنادیتی کہ شاہ ویز تھک جاتے ہیں اور وہ انہیں تنگ نہیں کرنا چاہتی۔ امی نے یہ ذکر شاہ ویز سے کیا تو وہ سمجھ گیا کہ اس کی خاطر تسمیہ نے خود ہی انکار کردیا۔
’’امی میں نے کہا تھا تسمیہ سے کہ وہ آپ کے ساتھ جا کر شاپنگ کر آئے۔ مجھے آج کل بالکل بھی فرصت نہیں ہے۔‘‘ شاہ ویز کے انکار پر امی اسے خود بازار لے گئی تھیں۔ اس کی پسند سے تمام چیزیں دلائیں۔ دل نہ چاہنے کے باوجود اس نے امی کی خاطر شاپنگ کی تھی اور گھر آکے تمام سامان اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا تھا۔ ہر چیز اس کے وجود سے اچھی لگتی ہے۔ وہ شخص تو اس سے بات تک کرنے کو تیار نہ تھا۔ پھر یہ سب تیاری کس کے لیے! اس نے تمام طاق راتوں میں جاگ کر عبادت کی تھی اور اللہ پاک سے معافی مانگی تھی اور دعا کی تھی کہ اس کا مجازی خدا بھی اسے معاف کردے تاکہ اس کی زندگی سہل ہوجائے۔
آج انتیسواں روزہ تھا اور امید تھی کہ شام میں چاند نظر آجائے گا۔ زوبی بہت پر جوش ہو رہی تھی۔ روزہ افطار ہوتے ہی وہ تسمیہ کو زبردستی لے کر چھت پر آگئی تھی چاند دیکھنے۔
’’زوبی کی بچی! امی خفا ہوں گی۔ سارا کام بکھرا پڑا ہے اور ہم دونوں یہاں آگئے۔‘‘ اس نے کہا تو زوبی چڑگئی۔
’’ابھی چلتے ہیں‘ چاند دیکھ لیں۔‘‘ آس پاس کی چھتوں پر لوگ چاند دیکھنے اوپر آئے تھے۔ وہ بھی زوبی کے ساتھ توجہ سے آسمان دیکھنے لگی۔ مہین سے چاند پر نظر پڑتے ہی زوبی چیخی تھی۔
’’چاند نظر آگیا۔‘‘
وہ کہتے ہی تسمیہ سے لپٹ گئی۔
’’چاند ات مبارک ہو۔‘‘
’’تمہیں بھی۔‘‘
تسمیہ نے مسکرا کر کہا پھر ان دونوں نے چاند دیکھنے کے بعد دعا پڑھی اور یہ خبر سنانے نیچے آگئیں۔ جہاں امی برتن وغیرہ سمیٹ رہی تھی۔
’’چاند نظر آگیا ہے امی!چاند رات مبارک ہو۔‘‘
’’تمہیں بھی! جیتی رہو‘ خوش رہو‘ سدا سہاگن رہو۔‘‘ انہوں نے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے دعا دی۔ وہ اس کے بعد خاموشی سے اپنے کام میں لگ گئی۔ زوبی اس کے ساتھ آج مکمل مدد کر رہی تھی کیونکہ تمام کام ختم کر کے انہیں مہندی لگانی تھی۔ عشاء کی نماز کے بعد اس نے زوبی کے ہاتھوں پر مہندی لگائی۔ تب شاہ ویز بھی نماز پڑھ کر آچکے تھے۔ وہ امی اور شاہ ویز کے لیے چائے بنا لائی۔
’’شاہ ویز! آج تو کوئی مصروفیت نہیں ہے تسمیہ کو باہر لے جائو بیٹا! اس کی پہلی عید ہے ہمارے ساتھ۔ اسے چوڑیاں وغیرہ اس کی پسند سے دلوالائو۔‘‘
’’امی! اس دن تو آپ نے مجھے سب کچھ دلوا دیا تھا۔ پھر امی کے گھر سے عیدی میں بھی اتنا کچھ ہے‘ اتنی ساری چیزیں میں کیا کروں گی؟‘‘
’’بیٹا! بے شک تمہارے پاس ہر چیز ہے۔ مگر میں جانتی ہوں اپنے شریک سفر کے ساتھ چھوٹی چھوٹی سی چیزیں خرید کر جو ایک لڑکی کو خوشی ملتی ہے وہ سب سے انمول ہوتی ہے اور عید تو ہے ہی خوشی کا موقع۔تمہارے سارے کام ختم ہوگئے ہیں۔ اب تم دونوں جا کر شاپنگ کر آئو۔‘‘ ان کے کہنے پر وہ خاموش ہوگئی کہ ہوسکتا ہے شاہ ویز خود ہی انکار کردیں۔ وہ وہاں سے اٹھ کر کمرے میں آگئی۔ امی کے گھر سے جو عیدی آئی تھی وہ بھی اس نے یوں ہی اٹھا کر رکھ دی تھی اور جو شاپنگ وہ خود کر کے آئی تھی وہ تمام چیزیں بھی ایسے ہی رکھی تھیں۔ اس نے دوبارہ دیکھی تک نہیں تھیں۔
’’تسمیہ! بھیا بلا رہے ہیں تمہیں جانا نہیں ہے بازار…؟‘‘ زوبی بلانے آئی تو وہ سمجھ گئی کہ امی کے سامنے انکار کر کے وہ کسی پر بھی یہ ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا کہ ان دونوں میں آپس میں کیسے تعلقات ہیں۔‘‘
’’بس دو منٹ میں آئی۔‘‘ وہ اٹھ کر واش روم بھاگی اور دس منٹ بعد وہ اس کے ساتھ تھی۔
’’کیا لینا ہے تمہیں؟‘‘ بازار میں داخل ہوتے ہیں اس نے پوچھا تھا۔
’’کچھ بھی نہیں۔ ہر چیز ہے تو میرے پاس۔‘‘
شاہ ویز نے ایک نظر اس پر ڈالی جس کے چہرے پر خوشی کی رمق تک نہ تھی۔ پھر اسے ساتھ لیے آگے بڑھ گیا۔ چاند رات کے حوالے سے ایک تو بازار میں رش بہت زیادہ تھا۔ شاہ ویز نے دوبارہ اس سے کچھ نہیں پوچھا تھا بلکہ اس کے لیے ساری شاپنگ صرف اپنی مرضی اور پسند سے کی تھی۔ سرخ رنگ کا خوب صورت اور نفیس سے کام والا سوٹ اس کے ساتھ ہم رنگ جیولری‘ چوڑیاں‘ سینڈل ہر ہر چیز اس نے اپنی پسندسے لی تھی۔
’’تم دو منٹ رکو یہاں میں ابھی آتا ہوں۔‘‘ وہ تسمیہ کو کہہ کر گیا اور جب لوٹا تو ہاتھ میں شاپنگ بیگ تھا۔ اس نے خاموشی سے بائیک پر نظر ڈالی۔ یعنی اب انہیں گھر جانا تھا اور کچھ دیر بعد وہ امی اور زوبی کو تمام شاپنگ دکھا رہی تھی۔
’’واہ‘ تمہارے ٹاپس مجھے بہت پسند آئے۔‘‘
’’تمہارے بھیا کی پسند ہے۔‘‘
’’واقعی! بھیا کی پسند تو بہت اچھی ہے یار! اگر یہ تمام چیزیں انہوں نے اپنی پسند سے لی ہیں تو پھر بھیا کو داد دینی پڑے گی۔‘‘
’’یہ تمام شاپنگ انہوں نے اپنی پسند سے کی ہے۔ میں نے کچھ کہا تک نہیں حتیٰ کہ تمہارے بھیا نے مجھ سے مشورہ تک نہ مانگا کہ تمہارے لیے لے رہا ہوں۔ تمہیں پسند بھی ہیں یا نہیں۔‘‘ زوبی ہنس دی۔ ’’بھیا جانتے ہیں کہ تم پر کیا سوٹ کرے گا تب ہی انہوں نے تم سے رائے نہیں لی۔‘‘
وہ تمام چیزیں سمیٹ کر کمرے میں آئی تو شاہ ویز سونے کے لیے لیٹ چکا تھا۔ امی نے اسے کہا تھا کہ مہندی لگانے کے بعد سونا اور مہندی لگانے کا اس کا بالکل بھی دل نہیں تھا۔ وہ کون ہاتھ میں لیے بیٹھی رہی مگر جب دل میں کسی چیز کی خواہش نہ ہو تو پھر کیا فائدہ آخر کون سائیڈ میں رکھ کر وہ پلٹنے لگی تھی کہ شاہ ویز نے اس کا بازو پکڑ لیا۔
’’مہندی نہیں لگائو گی تو امی بہت برا منائیں گی۔‘‘
وہ تو سمجھ رہی تھی کہ شاہ ویز سو چکے ہوں گے لیکن…!
’’مجھے شدید نیند آرہی ہے۔ اس وقت نہیں لگا پائوں گی۔‘‘
’’چاند رات ہے اور تمہیں نیند آرہی ہے؟‘‘ اس کے لہجے میں کچھ تھا‘ اس نے چونک کر اسے دیکھا۔ وہ اب بیٹھ چکا تھا۔ بازو اب تک اس کی گرفت میں تھا۔ جسے اس نے مزید زور سے تھام لیا تھا۔ اس کے چہرے پر مرکوز نظروں میں آج غصہ نہیں تھا۔ خفگی بھی نہیں‘ لیکن جانے کیا تھا کہ وہ فوراً ہی نظریں پھیر گئی۔
’’صبح عید ہے۔ تسمیہ! خوشی کا دن ہے اور میں یہ دن دلی خوشی کے ساتھ منانا چاہتا ہوں۔ مجھے پتا ہے تم نے جو غلطی کی اس پر تم نادم ہو اور تمہارے ساتھ اتنے دن جو رویہ میرا رہا اس پر میں تم سے شرمندہ ہوں۔

descriptioncompleteRe: اعتبار وفا

more_horiz
nice and great story dear friend keep posting please....

descriptioncompletenice story

more_horiz
بہت اچھی کہانی ہے

descriptioncompleteRe: اعتبار وفا

more_horiz
NICE STORY.........NICE SHARING

descriptioncompletespa in british virgin island

more_horiz
Lovely stories buddy keep it up

descriptioncompletespa in british virgin island

more_horiz
Lovely story buddy keep it up

descriptioncompleteRe: اعتبار وفا

more_horiz
privacy_tip Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum
power_settings_newLogin to reply