’اوئے باز آجا









’اوئے باز آجا‘ 110715135207_226_ap
امریکی اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ عوامی من و رنجن کے لیے میڈیا تھیٹر میں ’اوئے باز آجا‘ نامی جو کھیل پیش کررہی ہے وہ ایک اچھی سیریئس کامیڈی ہے۔
بڑھکوں سے بھرپور اسکرپٹ میں ایڈونچر بھی ہے اور سسپنس بھی۔ ہدایت کاری و اداکاری کا معیار بھی پہلے سے بہتر ہے اور مکالموں میں جھول بھی کم ہے اور کہانی بھی تیزی سے موڑ کاٹتی محسوس ہوتی ہے۔
دونوں اسٹیبلشمنٹس جانتی ہیں کہ سانپ اور سیڑھی کے اس کھیل میں کس کی گوٹ کہاں پھنستی ہے۔ سی آئی اے، پینٹا گون اور وائٹ ہاؤس کی کوشش اور خواہش ہے کہ مرحلہ وار امریکی انخلا باعزت طریقے سے سٹرٹیجک اثرو نفوز کھوئے بغیر عمل میں آجائے اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ افغان کیک میں سے صرف اتنا حصہ لینے پر راضی ہوجائے جتنا اسے دیا جارہا ہے۔ جبکہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کم ازکم آدھا کیک چاہتی ہے۔
اس سودے بازی میں پاکستان کے پاس نیٹو کے سپلائی روٹ اور حقانی گروپ جیسے اِکّے ہیں جبکہ امریکہ کے پاس اقتصادی و فوجی امداد کی گاجر ، بین الاقوامی برادری اور اداروں کے ذریعے پاکستان کی زندگی سہل یا اجیرن بنانے کی اہلیت اور علاقائی مہروں کو آگے پیچھے کرنے اور ہانکے کا ڈھول پیٹنے کی صلاحیت ہے۔
سی آئی اے، پینٹا گون اور وائٹ ہاؤس کی کوشش اور خواہش ہے کہ مرحلہ وار امریکی انخلا باعزت طریقے سے سٹرٹیجک اثرو نفوز کھوئے بغیر عمل میں آجائے اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ افغان کیک میں سے صرف اتنا حصہ لینے پر راضی ہوجائے جتنا اسے دیا جارہا ہے۔جبکہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کم ازکم آدھا کیک چاہتی ہے۔

لہٰذا جو پہلے آنکھ جھپک جائے، جو پہلے پتے رکھ دے، جو پہلے شو مانگ لے، جو پہلے پتے دوبارہ پھینٹنے کی تجویز دے دے یا جو پہلے جوئے میں اب تک ہاری جیتی رقم آدھی آدھی بانٹ لے۔ تمام آپشنز کھلے ہیں۔
بھلے اس وقت امریکہ کا ہاتھ پاکستان کی گردن پر اور پاکستان کا ہاتھ امریکہ کی لنگوٹ پر ہے لیکن خاطر جمع رکھیے۔ نا گردن ٹوٹنے والی ہے اور نا لنگوٹ اترے گی۔ دونوں کو مستقبل میں بھی ایک دوسرے سے کئی کام پڑنے ہیں۔ یہ من و رنجن تریسٹھ سال سے ہورہا ہے اور تریسٹھ سال اور ہوگا۔
نورا کشتیاں ، روٹھنا منانا، دم پر پاؤں رکھنا اور ہٹا لینا ، بن مانسوں کی طرح ایک دوسرے کی جانب ڈنڈا لے کر بڑھنا، منہ سے خوفناک آوازیں نکالنا اور زور زور سے سینہ پیٹ کر ایک دوسرے کو ڈرانا، یہ سب مفادات کے گھنے جنگلوں میں برپا کھیل کا مستقل حصہ ہے۔
پہلا گھورتا ہے، دوسرا گھڑی اتارتا ہے، پہلا آستین چڑھاتا ہے، دوسرا گالی دیتا ہے، پہلا گریبان پکڑتا ہے دوسرا بال پکڑ لیتا ہے اور پھر دونوں کے ساتھی ایک دوسرے کو پیچھے سے جپھا ڈال کر الگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دونوں نگاہوں نگاہوں میں ایک دوسرے کو ’میں تینوں چھڈاں گا نئیں‘ کہتے ہوئے اپنے اپنے چھانگوں کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔
پھر یہی چھانگے بیٹھتے ہیں اور غلط فہمیاں دور کروا دیتے ہیں۔ اگلے روز دونوں نکڑ پر قہقہے لگاتے، ایک دوسرے کو پیار بھری گالیاں دیتے، ہاتھ پر ہاتھ مارتے اور یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ بھائی جی میں بھی تو یہی کہہ رہا تھا جو آپ کہہ رہے تھے، آپ توخامخواہ گرمی کھا گئے۔
یہ وہ کھیل ہے جو گلی محلوں سے بین الاقوامی ایوانوں تک ہم سب ہوش سنبھالتے دیکھتے آ رہے ہیں۔
مفادات کی شادی میں جھگڑے ضرور ہوتے ہیں لیکن طلاقیں تب ہی ہوتی ہیں جب ایک کا دماغ پوری طرح چل جائے یا کوئی زیادہ بہتر رشتہ نظر میں ہو۔ فی الحال ایسی نوبت دکھائی نہیں دے رہی۔