نغمہ جاں بن کے اُتر جاؤ گے
روح میں نغمہ جاں بن کے اُتر جاؤ گے تم
کوئی
موسم تو نہیں کے گزر جاؤ گے تم
شہرِ رسوائی کے منظر نہیں دیکھے تم
نے
جتنا سمیٹوں گے یہاں،اتنا بکھر جاؤ گے تم
آنے والوں کے لیئے راستہ
خالی رکھو
جانے والوں سے نہ پوچھو کدھر جاؤ گے تم
یوں تو سینے کا خلا پُر
نہیں ہوتا مگر
کوئی تو خالی جگہ ہے جسے بھر جاؤ گے تم
!زندگی خوابِ سرائے
کی طرح ہے میرے دوست
اس کے حیرت سے جو نکلوں گے تو مر جاؤ گے تم
گردشِ
خوں میں مہک اٹھتا ہے خوشبو کی طرح
عشق وعدہ تو نہیں ہے کہ مکر جاؤ گے
تم
کارِ دنیا بھی،نیا عشق بھی،یاد بھی سلیمؔ
کتنے زخموں کو سجائے گھر جاؤ
گے تم
<blockquote> </blockquote>