میری آنکھیں سپنا دیکھ رہی ہیں
میری آنکھیں سپنا دیکھ رہی ہیں
قوم کی فکری آزادی کا
میری وہبی سوچوں کے پنچھی
اپنی وجدانی چونچوں سے کھول رہے ہیں
وہموں کی اُن زنجیروں کو
جو لوگوں کے ذہنوں کوجکڑے رکھتی ہیں
مکڑی کے جالوں کی صورت
اور شعور سے بے بہرہ من کی بستی میں
جہل بھرا شوریدہ سر کیڑا
روز نئے جالے بنتا ہے
میری بے بس خواہش پہ ہنستا ہے
ساری چیخیں سنتا ہے
فرقوں کی دیوار وں میں نفرت کی اینٹیں چنتا ہے
ان دیواروں کودن رات گراتے
قومی یکجہتی کی ہاتھ گھٹے جاتے ہیں
ہم ٹکڑوں میں لاکھ بٹے جاتے ہیں
غدّاری کی ذلّت آمیز رتیں بھی کتنی بد چہرہ ہوتی ہیں
ان میں روتے روتے، داغ دلوں کے دھوتے دھوتے
کتنی جھیلیں صحرا ہوتی ہیں
اور وہ جو شہرِ احساس کے سارے دروازے خود پر بند کیے
اپنی اپنی فکری قبروں پر خوش فہمی کا کتبہ آویزاں کرکے
انہونی کا رستہ دیکھ رہے ہیں
اُن کو یہ معلوم اگر ہو توکیسے ہو؟
کہ کٹھ پتلی حاکم کی مانند
اُن کے کہنہ سال عقیدے بھی جھوٹے ہیں
اس بنجر موسم میں ہم بے نام شگوفوں کی صورت بکھرے ہیں
اپنو ں کے ہاتھوں کیسے کیسے ٹوٹے ہیں
لیکن اب بھی!
میرے چاروں جانب چلتے پھرتے
ان بے حس پتلوں کی خالی آنکھوں کوراز نہیں معلوم
خوابوں کے جو ہر کا
محنت کے گوہر کا
سو میں نے اپنی پلکوں پر بے آواز پڑے
اپنے سارے خواب زمینوں کی نسوانی فطرت کو سونپ دئیے ہیں
کہ اک دن ان کی کوکھ سے
وہ بے چینی اور درد جنم لے گا
جو قوموں کے تعمیری جذبوں کے ہئیت عطا کرتا ہے
کوئی دھرتی ہو، کوئی موسم ہو
دستِ آزاد اگر بوئے تو بیج وفا کرتا ہے
میری آنکھیں سپنا دیکھ رہی ہیں!!!
میری آنکھیں سپنا دیکھ رہی ہیں
قوم کی فکری آزادی کا
میری وہبی سوچوں کے پنچھی
اپنی وجدانی چونچوں سے کھول رہے ہیں
وہموں کی اُن زنجیروں کو
جو لوگوں کے ذہنوں کوجکڑے رکھتی ہیں
مکڑی کے جالوں کی صورت
اور شعور سے بے بہرہ من کی بستی میں
جہل بھرا شوریدہ سر کیڑا
روز نئے جالے بنتا ہے
میری بے بس خواہش پہ ہنستا ہے
ساری چیخیں سنتا ہے
فرقوں کی دیوار وں میں نفرت کی اینٹیں چنتا ہے
ان دیواروں کودن رات گراتے
قومی یکجہتی کی ہاتھ گھٹے جاتے ہیں
ہم ٹکڑوں میں لاکھ بٹے جاتے ہیں
غدّاری کی ذلّت آمیز رتیں بھی کتنی بد چہرہ ہوتی ہیں
ان میں روتے روتے، داغ دلوں کے دھوتے دھوتے
کتنی جھیلیں صحرا ہوتی ہیں
اور وہ جو شہرِ احساس کے سارے دروازے خود پر بند کیے
اپنی اپنی فکری قبروں پر خوش فہمی کا کتبہ آویزاں کرکے
انہونی کا رستہ دیکھ رہے ہیں
اُن کو یہ معلوم اگر ہو توکیسے ہو؟
کہ کٹھ پتلی حاکم کی مانند
اُن کے کہنہ سال عقیدے بھی جھوٹے ہیں
اس بنجر موسم میں ہم بے نام شگوفوں کی صورت بکھرے ہیں
اپنو ں کے ہاتھوں کیسے کیسے ٹوٹے ہیں
لیکن اب بھی!
میرے چاروں جانب چلتے پھرتے
ان بے حس پتلوں کی خالی آنکھوں کوراز نہیں معلوم
خوابوں کے جو ہر کا
محنت کے گوہر کا
سو میں نے اپنی پلکوں پر بے آواز پڑے
اپنے سارے خواب زمینوں کی نسوانی فطرت کو سونپ دئیے ہیں
کہ اک دن ان کی کوکھ سے
وہ بے چینی اور درد جنم لے گا
جو قوموں کے تعمیری جذبوں کے ہئیت عطا کرتا ہے
کوئی دھرتی ہو، کوئی موسم ہو
دستِ آزاد اگر بوئے تو بیج وفا کرتا ہے
میری آنکھیں سپنا دیکھ رہی ہیں!!!
Last edited by Admin on Sun Oct 17, 2010 5:31 pm; edited 1 time in total (Reason for editing : font size)